نزاع نہیں
قرآن کی سورہ الحج میں خدانے ارشاد فرمایا ہے:فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ (22:67) یعنی وہ تم سے امر میں ہر گز نزاع نہ کریں اور لوگوں کو تم اپنے رب کی طرف بُلاؤ۔
اس آیت میں نزاع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اُنہیں نزاع کا موقع نہ دو(قال الزجاج معنى قوله فَلا يُنازِعُنَّكَ لا تنازعهم ) التفسیر المظہری، جلد6، صفحہ346۔ یعنی جب بھی تمہارے اور فریقِ ثانی کے درمیان کوئی اختلافی بات پیش آئے تواُس کو پُر امن بات چیت کے دائرہ میں محدود رکھو۔ ایسا ہر گز نہ ہونے دو کہ اختلاف اپنی ابتدائی حد سے گذر کر عملی نزاع بن جائے۔ اور متشددانہ مقابلہ آرائی کی نوبت آجائے۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی بات پر دو فریقوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ تناؤ بذات خود ایک فطری چیز ہے۔ وہ ہر حال میں اور ہرمقام پر پیدا ہوگا۔ اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اس تناؤ یا اس اختلاف کو حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اختلاف کا امن کے دائرہ میں رہنا اُس کا حد کے اندر رہنا ہے۔ اختلاف کا عملی ٹکراؤ یا تشدد کے دائرہ میں پہنچ جانااُس کاحد سے تجاوز کرنا ہے۔ حد کے اندر کوئی بھی اختلاف بُرا نہیں، مگر حد کے باہر چلے جانے کے بعد ہر اختلاف بُرا بن جاتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں با مقصد انسان کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ایک انسان جو ایک سنجیدہ مقصد کے لیے اُٹھا ہو، اُس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے اور دوسروں کے درمیان صرف وہی چیز زیر بحث آئے جو کہ اس کا اصل مقصد ہے۔ دونوں کے درمیان کسی اور چیز کا زیر بحث آنا بامقصد انسان کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دونوں کے درمیان عدم نزاع کی یہ فضا کیسے قائم ہو۔ جواب یہ ہے کہ یہ فضا صرف اُس انسان کے یک طرفہ صبر کے ذریعہ قائم ہوسکتی ہے جو ایک مثبت مقصد اپنے ساتھ لے کر اُٹھتا ہے۔ عملی اعتبار سے اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ بامقصد انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ یک طرفہ اعراض کے ذریعہ اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان معتدل ماحول قائم رکھے۔ تاکہ اُس کا سفر کسی توقف کے بغیر مسلسل جاری رہے۔