اسلام میں جہاد کا تصور
جہاد ایک عربی لفظ ہے۔ اس کے معنٰی سادہ طور پر کوشش کرنے کے ہیں۔ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے وہ پر امن جد وجہد کے ہم معنٰی ہے۔ توسیعی مفہوم کے اعتبار سے جہاد کو جنگ کے معنٰی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر عربی میں جنگ کے لیے اصل لفظ قتال ہے، نہ کہ جہاد۔
موجودہ زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر جنگ اور تشدد کے معنٰی میں بولا جاتا ہے۔ میڈیا کے کثرتِ استعمال کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ مثلاً لندن کے انگریزی روزنامہ ٹائمس (The Times) میں ایک آرٹیکل چھپا ہے جس کا عنوان یہ ہے— ایک مذہب جو تشدد کی اجازت دیتا ہے:
A religion that sanctions violence
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں پیغمبر اسلام کو رحمت للعالمین ( 21:107)كی حیثیت سے متعارف کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو دین لائے وہ دنیا کے لیے دین رحمت تھا۔ ایسے دین کی تصویر متشددانہ مذہب کی کیسے بن گئی۔ جواب یہ ہے کہ دو قسم کی غلط فہمیاں اس خلاف واقعہ تصویر کی ذمہ دار ہیں۔ ایک، نظریہ اور عمل میں فرق نہ کرنا۔ دوسرے، استثنا کو عموم کا درجہ دینا۔
1۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نظریہ کی روشنی میں عمل کو جانچا جاتا ہے، نہ کہ عمل کی روشنی میں نظریہ کو جانچا جانے لگے۔ مثلاً اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اس کی ممبر قوموں کے رویّہ کو جانچا جائے گا، نہ یہ کہ ممبر قوموں کی عملی روش کی روشنی میں چارٹر کا مفہوم متعین کیاجائے۔ اسی طرح اس مسئلہ کے علمی مطالعہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
مثلاً مسلمانوں کی ایک تعداد ان قبروں کو پوجتی ہے جس میں کسی بزرگ کو کبھی دفن کیا گیا تھا۔ اس کو دیکھ کر بت پرست لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہبِ شرک اور اسلام کے مذہب توحید میں کوئی فرق نہیں ۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ ہندو دھرم میں کھڑا کر کے پوجا جاتا ہے اور اسلام دھرم میں لِٹا کر پوجا جاتا ہے۔ مگر یہ تقابل درست نہیں۔ کیوں کہ جو مسلمان قبروں کو پوجتے ہیں وہ ان کا ایک انحرافی فعل ہے، اس کا اسلام کی اصل تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی معاملہ جہاد کا ہے۔ جہاد بلاشبہ ایک پر امن عمل ہے۔ لیکن اگر محمود غزنوی اور اورنگ زیب کی متشددانہ کارروائیوں کو اسلامی جہاد بتایا جائے یا موجودہ زمانہ میں جو مسلمان مختلف مقامات پر اسلام کے نام سے لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں ان کو جہاد کہا جائے تو یہ رائے قائم کرنے کا صحیح طریقہ نہ ہوگا۔ صحیح علمی طریقہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کی ثابت شدہ تعلیمات کو اسلامی نظریہ کا ماخذ بنایا جائے اور مسلمانوں کی کارروائیوں کو اس کی روشنی میں جانچا جائے۔ مسلمانوں کا جو عمل اسلام کے نظریۂ جہاد پر پورا نہ اترے اُس کو رد کردیا جائے۔
2۔ غلط فہمی کا دوسرا سبب استثنائی تعلیم کو عمومی تعلیم کا درجہ دینا ہے۔ قرآن میں تقریباً چھ ہزار آیتیں ہیں۔ ان میں سے بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو جہاد بمعنٰی قتال سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم آیتیں، زیادہ متعین طور پر اعشاریہ 5 فیصد (0.5 per cent)۔
اصل یہ ہے کہ قرآن 23 سال کی مدت میں وقفہ وقفہ سے اترا۔ جیسے حالات پیداہوتے تھے اسی کے مطابق اللہ کی طرف سے احکام نازل کر دئے جاتے تھے۔ اس 23 سال کو دو مختلف مدتوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ایک 20 سال کی مدت اور دوسرے تین سال کی مدت۔ 20 سال کی مدت میں قرآن میں وہ احکام اترے جو ایمان، اخلاص، عبادت، اخلاق، عدل، اصلاح سے تعلق رکھتے تھے اور تین سال کی مدت میں جنگ کے احکام اترے جب کہ پیغمبر اسلام کے مخالفوں نے یک طرفہ طورپر حملہ کر کے اہل اسلام کے لیے دفاع کا مسئلہ پیدا کردیا تھا۔ گویا قرآن میں جہاد بمعنٰی قتال کی آیتوں کی حیثیت استثنا کی ہے اور دوسری آیتوں کی حیثیت عموم کی۔
استثنا اور عموم کا یہ فرق ہرجگہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر گیتا ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے۔ اس میں حکمت کی بہت سی باتیں ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ گیتا میں کرشن جی ارجن سے کہتے ہیں کہ ہے ارجن، لڑائی کے لیے تیار ہو اور جنگ کر۔
O Arjun, be ready and fight. (Chapter 3, 11)
پوری گیتا کو پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنگ کی بات اس میں استثنا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر صرف اسی استثنائی حصہ کو لیا جائے اور اس کو جنرلائز کرکے اسی سے گیتا کی مجموعی تعلیم نکالی جائے تو یہ ایک غیر علمی طریقہ ہوگا اور گیتا کوصحیح طورپر سمجھنے میں رکاوٹ بن جائے گا۔
اسی طرح بائبل میں آیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ:
Do not think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword. (Matthew 10/34)
حضرت مسیح کے پورے کلام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کا یہ قول استثنائی قول ہے۔ یہی ان کی عمومی تعلیم نہیں۔ ایسی حالت میں حضرت مسیح کے پیغام کو متعین کرنے کے لیے ان کے عمومی اقوال کو دیکھا جائے گا۔ بعض استثنائی اقوال کو لے کر مسیح کی عمومی تصویر بنانا درست نہیں ہوسکتا۔
یہی کسی کتاب کے مطالعہ کا علمی طریقہ ہے۔ یہی طریقہ گیتا اور بائبل کے مطالعہ کے لیے بھی درست ہے اور یہی طریقہ قرآن کے مطالعہ کے لیے بھی درست۔
اب قرآن اور حدیث کے حوالوں کی روشنی میں جہاد کا مفہوم متعین کیجئے۔ قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(29:69)۔ یعنی جو لوگ اللہ میں جہاد کریں گے اللہ انہیں اپنے راستے دکھائے گا۔ اس آیت میں جہاد سے مراد وہ کوشش ہے جو سچائی کی تلاش میں یا اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کی جائے۔ اس آیت میں ایک ایسے عمل کو جہاد کہا گیا ہے جو مکمل طورپر ایک فکری جستجو (intellectual pursuit) کی حیثیت رکھتی ہے۔