فتح مبین کا راز
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ میں داخل ہونا چاہتے تھے مگر مکہ کے سرداروں نے سراسر ناحق طورپر آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان نزاع کی صورت قائم ہوگئی۔ آپ نے اس کا حل اس طرح نکالا کہ مکہ میں اپنے داخلہ کے حق کو واپس لے لیا۔ اس کے جواب میں اہل مکہ نے آپ کو یہ ضمانت دی کہ وہ آپ کے خلاف جنگ کو ختم کر دیں گے تا کہ دونوں کے درمیان پر امن ماحول قائم ہوسکے۔
صلح حدیبیہ کی تکمیل کے فورًا بعد قرآن کی سورہ نمبر 48 نازل ہوئی۔ اس سورہ میں اعلان کیا گیا کہ صلح حدیبیہ تمہارے لیے فتح مبین (کھلی فتح) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قرآنی بیان سے ایک اہم اصول اخذ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ نزاع کا خاتمہ ہمیشہ لو اور دو (give and take) کے طریقہ پر ہوتا ہے۔ پیغمبر اور آپ کے اصحاب نے اپنے مخالفین کے اس مطالبہ کو مانا کہ وہ مکہ میں داخلہ کے بارے میں اپنے حق کوچھوڑ دیں۔ اس کے جواب میں مخالفین اس پر راضی ہوئے کہ وہ اہل اسلام کے خلاف اپنی جنگی کارروائی کو ترک کر کے انہیں امن کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں گے۔
اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو احساس شکست کے بغیر پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہوں۔ اس دنیا میں پانا صرف اس انسان کے لیے مقدر ہے جو دوسروں کو دینے کے لیے راضی ہو جائے۔ اس دنیا میں کامیاب اقدام کی خوش قسمتی صرف اس کو ملتی ہے جو دوسروں کو راستہ دینے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتا ہو۔
اب اس اصول کی روشنی میں کشمیر کے مسئلہ کو سمجھیے۔پاکستان کے لیڈروں نے کشمیر کے نزاع کو حل کرنے کے لیے جو پالیسی اختیار کی، وہ مکمل طورپر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں مذکورہ قرآنی اصول کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو جانا مگر انہوں نے فطرت کے قانون کو نہیں جانا۔
1947ء میں یہ مسئلہ بالکل سادہ تھا۔ جیسا کہ الرسالہ میں ایک سے زیادہ بار لکھا جاچکا ہے، اس وقت یہ مسئلہ اپنی فطری حالت میں تھا۔ اس وقت پاکستانی لیڈروں کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ حیدرآباد پر اپنے دعویٰ کو چھوڑدیںاور اس کے نتیجہ میں پورا کشمیر انہیں حاصل ہوجائے۔ مگر پاکستان کے لیڈراپنی ناقابل فہم نادانی کی بناپر ایسا نہ کرسکے اور یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک تباہ کن نزاع کے طورپر باقی رہا۔
بنگلہ دیش کی جنگ کے بعد 1971ء میں پاکستان کے 93 ہزار فوجی انڈیا کے قبضہ میں آگئے۔ اس وقت یہ ممکن تھا کہ ان 93 ہزار فوجیوں کو دے کر پاکستان سے کشمیر کے معاملہ کا مستقل تصفیہ کر لیا جائے مگر دوبارہ دونوں ملکوں کی قیادت ناکام رہی اور اس قیمتی موقع کے باوجود کشمیر کا مسئلہ بدستور غیرحل شدہ صورت میں پڑا رہا۔
2001ء کے آخر میں آگرہ میں کشمیر کے سوال پر دونوں ملکوں کے لیڈروں کی کانفرنس ہوئی۔ اس موقع پر راقم الحروف نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ صورت موجودہ (status quo) کو مان کر اس کا تصفیہ کر لیا جائے۔ یعنی کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے قبضہ میں ہے وہ پاکستان کا حصہ بن جائے اور اس کا جو حصہ انڈیا کے زیر انتظام ہے، اس کو انڈیا کا مستقل حصہ مان لیا جائے۔ مگر اس بار بھی دونوں ملکوں کے لیڈروں کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا اور یہ نزاعی معاملہ پہلے جہاں تھا وہیں اب بھی باقی رہا۔
آخری صورت کے طورپر راقم الحروف نے الرسالہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس معاملہ میں ایک قسم کی ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) اختیار کر لی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے سیاسی سوال کو دوسرے اہم تر انسانی سوالات سے الگ کر دیا جائے۔ کشمیر کے مسئلہ کوسختی کے ساتھ پرامن بات چیت کی میز پر رکھ دیا جائے اوراس کے سوا جو اہم تر غیر سیاسی معاملات ہیں ان میں پوری طرح نارمل پالیسی اختیار کر لی جائے۔ مثلاً تجارت، تعلیم، آمد ورفت، سیاحت، ثقافتی تعلقات اور دوسرے انسانی معاملات میں اسی طرح معتدل تعلقات قائم کر لیے جائیں جس طرح انڈیا اورنیپال کے درمیان یا یورپ کے ایک ملک اور دوسرے ملک کے درمیان ہیں۔ اس پالیسی کا یہ فائدہ ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ دوسری انسانی اور قومی ترقیوں میں رکاوٹ نہ رہے گا، جیسا کہ وہ اب بنا ہوا ہے۔
کشمیر کے معاملہ میں پاکستانی لیڈروں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کی قیمت دوسرے فریق سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ فطرت کے ناقابلِ تغیر اصول کو نظر انداز کرکے اپنے خود ساختہ مفروضات کی بنیاد پر اپنی ایک دنیا بنانا چاہتے ہیں۔ مگرعالم حقیقت میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
کشمیر کے بارے میں پاکستان کی موجودہ غیر حقیقت پسندانہ روش نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگر پاکستان اپنی اس غیر حقیقت پسندانہ روش پر باقی رہتا ہے تو اس کا آخری نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان تباہ کن جنگ ہے۔ خدا نخواستہ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو وہ دونوں ملکوں کے لیے سخت نقصان کا باعث ہوگی۔ اگر چہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ انڈیا ایک بڑا ملک ہونے کی بنا پر پھر بھی اس کو سہار لے گا۔ مگر جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہ نسبتاً بہت چھوٹا ملک ہے۔ جنگ کی صورت میں اس کا انجام یقینی طورپر یہ ہوگا کہ اب تو وہ کشمیر پر انڈیا کی بالادستی ماننے پر راضی نہیں لیکن جنگ کے بعد وہ اتنا تباہ ہوگا کہ وہ اپنی بحالی کے لیے کئی دوسرے ملکوں کی بالا دستی قبول کر لے گا تاکہ وہ ان کے تعاون کے ذریعہ زندہ رہ سکے۔ اور جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، اس کا سیاسی نقشہ کسی تبدیلی کے بغیر وہی رہے گا جو کہ آج ہمیں نظر آتاہے۔