عسکری دور سے غیر عسکری دور تک
ساتویں صدی کے نصف اول میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اُس وقت ساری دنیا میں سیاسی جبر کا وہ نظام قائم تھا جس کو فرانسیسی مؤرخ ہنری پرین نے مطلق بادشاہت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ یہ نظام جبر انسان کو ہر قسم کے خیر سے محروم کیے ہوئے تھا۔ اُس وقت حکم دیا گیا کہ اس مصنوعی نظام کا خاتمہ کر دو تاکہ انسان کے اوپر ان بھلائیوں کا دروازہ کھل جائے جو اللہ نے اُن کے لیے مقدر کیا ہے۔
قرآن میں یہ حکم ان الفاظ میں دیا گیا :وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ (8:39)۔اور اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد سیاسی جبر کا وہ قدیم نظام ہے جو آیت کے نزول کے وقت ساری دنیا میں رائج تھا۔ اور دین سے مراد فطرت پر مبنی خدا کا تخلیقی نظام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنوعی جبر کا نظام ختم ہو جائے اور دنیا میں خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق حالتِ فطری قائم ہو جائے۔ جس میں ہر انسان اپنے عمل کے لیے آزاد ہو، ہر انسان کھلے ماحول میں اپنا ٹیسٹ دے سکے۔
رسول اور اصحاب رسول کی جدو جہد اور اُن کی قربانی سے مذکورہ قدیم نظام ٹوٹ گیا اور دنیا میں وہ نظام آگیا جو اللہ کو مطلوب تھا۔ تاہم یہ ایک عظیم تبدیلی تھی۔یہ وہ انوکھا انقلاب تھا جس کو ہنری پرین نے اس طرح بیان کیا ہے— اسلام نے دنیا کی حالت کو بدل دیا۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ توڑ کر پھینک دیا گیا:
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
یہ انقلاب اتنا بڑا تھا کہ وہ اچانک نہیں آسکتا تھا۔ چنانچہ اللہ کی خصوصی مدد سے وہ ایک عمل (process) کے روپ میں جاری ہوا۔ اسلام کے دور اول کا یہ انقلاب گویا ایک دھکا تھا جو تاریخ کو دیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ ایک مخصوص رُخ پر چل پڑی۔ ساتویں صدی کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی کے وسط میں اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ قدیم طرز کا جبری نظام دوبارہ زمین پر قائم ہو۔
بعد کے زمانہ میں دوبارہ کسی اور ایمپائر کادنیا میں قائم نہ ہونا کوئی اتفاقی بات نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ پچھلی چند صدیوں کے عمل کے نتیجہ میں دنیا میں ایسی ہمہ گیر تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جو کسی نئے ایمپائر کے قیام کی راہ میں فیصلہ کن طورپر رکاوٹ ہیں۔ اب وہ اسباب دنیا میں موجود ہی نہیں جب کہ کوئی سیاسی حوصلہ مند دوبارہ قدیم طرز کا ایمپائر کھڑا کرسکے۔
موجودہ زمانہ میں سیاسی ایمپائر کے قیام کے خلاف جو موانع (deterrents) پیدا ہوئے ہیں اُن کو چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
1۔ قدیم زمانہ میں یہ صورت حال تھی کہ جب کوئی بادشاہ فوجی طاقت کے زور پر ایک علاقہ پر قبضہ کرلیتا تھا تو وہاں کے لوگ اُس کو بادشاہ کا فطری حق سمجھ کر اُس کی سیاسی بالا دستی کو قبول کرلیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک بادشاہ کو صرف دوسرا بادشاہ ختم کرسکتا تھا، نہ کہ عوام۔ مگر موجودہ زمانہ میں جمہوریت اور سیاسی آزادی اور قومی حکومت کے تصورات کے نتیجہ میں رائے عامہ اتنی زیادہ بدل چکی ہے کہ اب کسی بیرونی بادشاہ کو وہ اجتماعی قبولیت (social acceptance) حاصل نہیںہوتی جو کسی حکومت کے قیام و بقا کے لیے ضروری ہے۔
2۔ قدیم زمانہ میں اقتصادیات کاانحصار تمام تر زمین پر مبنی ہوتا تھا اور زمین صرف بادشاہ کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ موجودہ زمانہ میں صنعتی انقلاب نے بے شمار نئے اقتصادی ذرائع پیدا کردیے ہیں۔ یہ نئے ذرائع ہر انسان کے لیے قابل حصول ہیں۔ اس لیے اب عام لوگوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ سیاسی حکمراں کے خلاف ایسے آزاداقتصادی وسائل پالیں جو سیاسی حکمراں کے دائرۂ اقتدار کے باہر ہوں۔ اس اقتصادی تبدیلی نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آج ایسی انقلابی تحریک چلائی جاسکے جس کو روکنا سیاسی حکمراں کے لیے ممکن نہ ہو۔
3۔ اسی طرح ایک چیز وہ ہے جس کو مانع میڈیا(media deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں میڈیا اور کمیونی کیشن کی ترقی نے یہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ ایک علاقہ میں پیش آنے والا واقعہ فوراً ہی ساری دنیا میں پہنچ جائے۔ تمام دنیا کے لوگ اُس سے پوری طرح باخبر ہوجائیں۔ یہ ایک ایسا چیک (check)ہے جس نے قدیم طرز کے سیاسی ایمپائر کے قیام کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اب کوئی بادشاہ اپنے اختیارات کا اُس طرح بے خوف استعمال نہیں کرسکتا جو پہلے ممکن ہوا کرتا تھا۔
4۔ اسی طرح ایک اور چیزوہ ہے جس کو عالمی مانع (universal deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کے تحفظ کے نام پر قائم ہونے والے ادارے، ایسے مستقل چیک ہیں جن کو کوئی سیاسی حکمراں نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ دیر تک اُن کی خلاف ورزی کا تحمل کرسکتا ہے۔
ان عالمی تبدیلیوں کے بعدانسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ قدیم دور اگر عسکری دور تھا تو اب نیا دور غیر عسکری دور ہے۔ قدیم زمانہ میں پُرتشدد طریقہ کو کسی بڑی کامیابی کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب پُرامن طریقہ(peaceful method) کو مطلق طورپر کامیاب طریقہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ اب کسی مقصد کے حصول کی جدو جہد کو اول سے آخر تک اس طرح چلایا جاسکتا ہے کہ اُس کے کسی بھی مرحلہ میں تشدد کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آئے۔ وہ مکمل طورپر پُرامن ذرائع کی پابندرہتے ہوئے کامیابی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پُر تشدد طریقِ کار ایک خلاف زمانہ عمل(anachronism) کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، اب وہ وقت کے مطابق، کوئی عمل نہیں۔
جہاد بمعنٰی قتال کو تمام علماء حسن لغیرہٖ مانتے ہیں، نہ کہ حسن لذاتہ۔ اب موجودہ حالات میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اب جہاد بمعنٰی قتال کا وقت نہیں رہا، اب جہاد بمعنٰی پُر امن جدوجہد کا وقت دنیا میں واپس آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاد بمعنٰی قتال اب منسوخ ہوگیا۔وہ حکماً بدستور باقی ہے۔ یہ نیا معاملہ جو پیش آیا ہے اُس کا تعلق خود حکم کی منسوخی سے نہیں ہے بلکہ احوال کی تبدیلی سے ہے۔ اس کی توجیہہ اس فقہی مسلّمہ میں پائی جاتی ہے : تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان۔ (زمان ومکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں)۔ یہ امر واضح ہے کہ تبدیلی اور منسوخی میں نوعی فرق پایا جاتا ہے۔
یہ تبدیلی جو موجودہ زمانہ میں پیش آئی ہے وہ عین اسلام کے حق میں ہے اور وہ اسلام ہی کے پیدا کردہ انقلاب کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے مواقع آخری حد تک کھول دیے جائیں۔ اب اہلِ اسلام گویا آخری طورپر اُس دور میں داخل ہوچکے ہیں جس کی آمد کی دعا رسول اور اصحاب رسول نے ان الفاظ میں کی تھی:رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ( 2:286)۔ یعنی اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔
اب اسلام کے دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی ٹکراؤ کی ضرورت نہیں۔ اب پُرامن طریقِ کار پر عمل کرتے ہوئے وہ سب کچھ حاصل کیاجاسکتا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔