مذہبی اختلاف

اس سلسلہ میں پہلا نظری مسئلہ وہ ہے جو مذہبی اختلاف سے تعلق رکھتا ہے۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ بظاہر یہ بتاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان واضح اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کسی مذہبی گروہ کا عقیدہ وحدتِ وجود(monism) کے تصور پر قائم ہے اور کسی گروہ کا عقیدہ توحید (monotheism) کے تصور پر قائم ہے۔ کسی مذہب میں خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) کا تصور ہے اور کسی مذہب میں الہامی سچائی(revealed truth)کا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مذہبی فرق و اختلاف ہی تمام فرقہ وارانہ نزاعات کی اصل جڑ ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی صرف اُس وقت پیدا کی جاسکتی ہے جب کہ کسی نہ کسی طرح ان مذہبی اختلافات کا خاتمہ کردیا جائے۔ کچھ انتہا پسند لوگ، اُن کو بلڈوز کردو(buldose them all) کی زبان بولتے ہیں۔ مگر وہ اتنی زیادہ ناقابلِ عمل ہے کہ وہ سرے سے قابلِ تذکرہ ہی نہیں۔ کچھ دوسرے لوگ یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ تمام مذاہب کی تعلیمات ایک ہیں۔

اس دوسرے گروہ میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر بھگوان داس (1869-1958) کا ہے۔ وہ نہایت قابل آدمی تھے۔ اُنہوں نے تمام بڑے بڑے مذاہب کے لمبے مطالعہ کے بعد ایک کتاب تیار کی جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ تمام مذاہب کی تعلیم ایک ہے۔ یہ کتاب 929 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا نام یہ ہے:

Essential Unity Of All Religions

منتخب اقتباسات کو لے کر ہر مذہب کو ایک ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص مختلف ملکوں کے دستور کو لے اور پھر ہر دستور سے کچھ منتخب دفعات کو جمع کر کے ایک کتاب چھاپے اور اُس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرے کہ ہر ملک کا دستور ایک ہے اور ایک ہی قسم کی دفعات کا مجموعہ ہے۔ اس قسم کا آفاقی دستور کسی مصنف کو تو خوش کرسکتا ہے مگر وہ کسی ایک ملک کے لیے بھی قابلِ قبول نہ ہوگا۔ ہر ملک اس کو شکر یہ کے ساتھ رد کردے گا۔ یہی معاملہ اتحاد مذہب کے بارے میں مذکورہ قسم کی کتابوں کا ہے۔ اس قسم کی کتاب اُس کے مرتب کو خوش کرسکتی ہے مگر وہ اہلِ مذاہب کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔

میں نے بھی اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ میں نے اپنے مطالعہ میں پایا ہے کہ تمام مذاہب کو ایک بتانا واقعہ کے مطابق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں اتنے زیادہ اختلافات ہیں کہ اُن کو ایک ثابت کرنا عملی طورپر ممکن ہی نہیں۔ مثلاً کسی مذہب کا کہنا ہے کہ خدا ایک ہے۔ کوئی مذہب کہتا ہے کہ خدا دو ہیں۔ کوئی مذہب بتاتا ہے کہ خدا تین ہیںاور کسی مذہب کادعویٰ ہے کہ خداؤں کی تعداد 33 یا 33کروڑ ہے۔ کسی کے نزدیک خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُن کی گنتی ہی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں ہر مذہب کی تعلیم کو ایک بتانا ایک ایسا بیان ہے جوکسی خوش فہم کے دماغ میں تو جگہ پاسکتا ہے مگر عملی اور منطقی طورپر اس کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔

حتیٰ کہ بالفرض کسی تدبیر سے تمام مذاہب کے ٹیکسٹ کو ایک ثابت کردیاجائے تب بھی اختلاف ختم نہ ہوگا۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب میں ہر ایک کا ایک تسلیم شدہ ٹیکسٹ ہے مگر اس ٹیکسٹ کی تعبیر میں دوبارہ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور ایک مذہبی ٹیکسٹ خود داخلی طورپر کئی مذہبی فرقے (sects)   وجود میں لانے کا سبب بن جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اختلاف یا فرق صرف مذہب کی بات نہیں۔ ہماری دنیا پوری کی پوری فرق اور تنوع کے اصول پر قائم ہے۔ یہ فرق اتنا زیادہ ہمہ گیر ہے کہ کوئی بھی دو چیز یا کوئی بھی دو انسان فرق سے خالی نہیں۔ کسی نے بجا طورپر کہا ہے کہ فطرت یکسانیت سے نفرت کرتی ہے:

Nature abhors uniformity

جب فرق و اختلاف خود نیچر کا ایک قانون ہو تو مذہب اُس سے مستثنیٰ کیوں کر ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی تمام چیزوں میں ایک اور دوسرے کے درمیان فرق پایا جاتا ہے اسی طرح مذاہب میں بھی ایک اور دوسرے کے درمیان فرق ہے۔ دوسرے معاملات میں ہم نے فرق کو مٹانے کی ضروری کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہہ دیا کہ آؤ ہم اس پر اتفاق کرلیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے:

Let us agree to disagree

یہی عملی فارمولا ہمیں مذہب کے معاملہ میں بھی اختیار کرنا چاہیے۔ یہاں بھی ہمیں فرق و اختلاف کے باوجود اتحاد پر زور دینا چاہیے، نہ کہ فرق و اختلاف کے بغیر اتحاد پر۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اختلافات کے مسئلہ کا حل صرف ایک ہے او روہ ہے— ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو:

Follow one and respect all

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom