غیر حکیمانہ طریقہ
موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ جب کسی سے کسی مسئلہ میں نزاع پیدا ہو تو پہلے ہی مرحلہ میں یہ کیا جائے کہ جو کچھ مل رہا ہے اس کو رضامندی کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔ اگر پہلے مرحلہ میں ایسا نہیں کیا گیا اور زیادہ حاصل کرنے کی خاطر مسئلہ کے تصفیہ کو لمبا کیا گیا تو مسئلہ اور پیچیدہ ہو جائے گا، اور پہلے مرحلہ میں جو کچھ مل رہا تھا اس کا ملنا بھی ناممکن ہوجائے گا۔
اس کی ایک مثال فلسطین کا موجودہ مسئلہ ہے۔ 1917 کا واقعہ ہے۔ برٹش امپائر نے فلسطین کی تقسیم کا ایک فارمولا بنایا۔ یہ عام طورپر بالفور ڈیکلریشن کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تقسیم واضح طور پر عربوں کے حق میں تھی۔ اس تقسیم میں فلسطین کا ایک تہائی سے کم حصہ اسرائیل کو دیا گیا تھا اور اس کا دو تہائی سے زیادہ حصہ عربوں کے لیے خاص کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق، یروشلم کا پورا شہر اور بیت المقدس کا پورا علاقہ عربوں کو ملا تھا۔ مگر اس وقت کی مسلم قیادت نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک عرب عالم نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس کو قبول کر لینے کی بات کہی تو اس پر عرب مفاد سے غداری کا الزام لگایا گیا۔ وہ شخص یہ شعر کہہ کر مرگیا:
سیعلم قومی أننی لا أغشھم ومھما استطال اللیل فالصبح واصل
یعنی عنقریب میری قوم جان لے گی کہ میں نے اس کو دھوکہ نہیںدیا ہے۔ اور رات خواہ کتنی ہی لمبی ہو جائے صبح بہر حال آکر رہتی ہے۔
اس وقت کی مسلم قیادت یا عرب قیادت اگر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتی اورابتدائی مرحلہ میں جو کچھ اس کو مل رہا تھا اس کو لے کر وہ اپنی ساری کوشش تعمیر و ترقی کے کام میں لگا دیتی تو آج فلسطین کے عرب مسلمانوں کی حالت وہاں کے یہود سے بدرجہا زیادہ بہتر ہوتی۔ مگر غیر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلسطینیوں کے حصہ میں تباہی کے سوا کچھ نہ آیا۔
ٹھیک یہی معاملہ جموں و کشمیر میں بھی پیش آیا ہے۔ کشمیری قیادت اور پاکستانی قیادت دونوں اس معاملہ میں بد ترین نااہلی کا شکار ہوئی ہیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ کشمیر کا موجودہ مسئلہ خود اس کے قائدین کی نادانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا، نہ کہ کسی اور کے ظلم یا سازش کے نتیجہ میں ۔
اس معاملہ میں مسلم قائدین کی نادانیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ یہاں میں اس کے صرف ایک پہلو کا ذکر کروں گا۔ 1947 میں جب ملک تقسیم ہو اتو پاکستان کی قیادت غیر حقیقت پسندانہ طورپر دو مختلف ریاستوں کی دعویدار بن گئی—جونا گڑھ اور حیدرآباد۔ اگر پاکستان کی قیادت حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے جونا گڑھ اورحیدرآباد کی مدعی نہ بنتی (جو پاکستان کو سرے سے ملنے والا ہی نہ تھا) تو کشمیر کا معاملہ کبھی سنگین نہ بنتا۔ اس کا فیصلہ نہایت آسانی کے ساتھ پاکستان کے حق میں ہو جاتا۔ مگر پاکستانی قائدین کی دو طرفہ دوڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی ان کے حصہ میں نہ آیا۔ یہاں میں اس سلسلے میں خود پاکستان کے دو حوالے نقل کروں گا۔
اس سلسلہ میں پہلا حوالہ چودھری محمد علی کا ہے۔ وہ 1955-56 میں پاکستان کے پرائم منسٹر تھے۔ اس سے پہلے وہ لیاقت علی خاں کی حکومت میں منسٹر کی حیثیت سے شریک تھے۔ پاکستان کے حالات پر ان کی ایک ضخیم انگریزی کتاب چھپی ہے جس کا نام ایمرجنس آف پاکستان (Emergence of Pakistan) ہے۔
اس کتاب میں وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم کے بعد جو نا گڑھ کے مسلم نواب نے پاکستان کے ساتھ اپنی ریاست کا الحاق کرلیا جب کہ جوناگڑھ میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ انڈیا نے اس الحاق کو نہیں مانا اور پولیس ایکشن کے ذریعہ ریاست جونا گڑھ کو انڈین یونین میں ملالیا۔ اس کے بعد دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں ہندستان کی طرف سے جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل شریک تھے۔ اور پاکستان کی طرف سے نواب زادہ لیاقت علی خاں اور چودھری محمد علی نے شرکت کی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ سردار پٹیل اگر چہ پاکستان کے سخت دشمن تھے مگر وہ نہرو سے زیادہ حقیقت پسند تھے۔ دونوں ملکوں کے وزیر اعظم کے درمیان ایک گفتگو میں ،جس میں پٹیل اور میں دونوں موجود تھے، لیاقت علی خاں نے کشمیر اور جونا گڑھ کے معاملہ میں انڈیا کے متضاد رویہ پر تفصیلی کلام کیا۔ انہوں نے کہا کہ جوناگڑھ کے حکمراں کے پاکستان سے الحاق کے باوجود وہ انڈیا کا حصہ ہے۔ کیوں کہ وہاں کی اکثریت ہندو ہے تو کشمیر اپنی مسلم اکثریت کے ساتھ کیوں کر انڈیا کا حصہ بن سکتا ہے، صرف اس لیے کہ وہاں کے ہندو حکمراں نے انڈیا کے ساتھ ایک مشروط الحاق کے کاغذات پر دستخط کردئے۔اگر جوناگڑھ کے الحاق کی دستاویز جس پر وہاں کے مسلم حکمراں نے دستخط کیے ہیں اپنے اندر کوئی جواز نہیں رکھتی تو اس دستاویز کا بھی کوئی جواز نہیں جس پر کشمیر کے ہندو حکمراں نے دستخط کیے ہیں۔ اگر جونا گڑھ میں وہاں کے عوام کی خواہش اہمیت رکھتی ہے تو یہی اصول کشمیر کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ انڈیا کشمیر اور جونا گڑھ دونوں کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ جب لیاقت علی خاں نے یہ بات کہی تو پٹیل اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور پھٹ پڑے، انہوں نے کہا کہ تم جونا گڑھ کا موازنہ کشمیر سے کیوں کرتے ہو، حیدر آباد اور کشمیر کی بات کرو، اور ہم ابھی ایک تصفیہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ پٹیل کا نظریہ اس موقع پر اور بعد کو بھی یہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے کو ان کی مرضی کے خلاف اپنے قبضہ میں رکھنا انڈیا کے لیے کمزوری کا ذریعہ ہوگا، نہ کہ طاقت کا ذریعہ۔ ان کا احساس تھا کہ انڈیا اور پاکستان اگر اس پر راضی ہو جائیں کہ حیدر آباد انڈیا کے ساتھ ہو اور کشمیر پاکستان کے ساتھ، تو کشمیر اور حیدر آباد کا مسئلہ پُر امن طورپر حل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مشترک طورپر دونوں ہی کا فائدہ ہوگا۔
Sardar Patel, although a bitter enemy of Pakistan was a greater realist than Nehru. In one of the discussions between the two Prime Ministers, at which Patel and I were also present, Liaquat Ali Khan dwelt at length on the inconsistency of the Indian stand with regard to Junagadh and Kashmir. If Junagadh, despite its Muslim ruler's accession to Pakistan belonged to India because of its Hindu majority, how could Kashmir, with its Muslim majority, be a part of India simply by virtue of its Hindu ruler having signed a conditional instrument of accession to India. If the instrument of accession signed by the Muslim ruler of Junagarh was of no validity, the instrument of accession signed by Hindu ruler of Kashmir was also invalid. If the will of the people was to prevail in Junagadh, it must prevail in Kashmir as well. India could not claim both Junagadh and Kashmir. When Liaqut Ali Khan made these incontrovertible points, Patel could not contain himself and burst out: “Why do you compare Junagadh with Kashmir? Talk of Hyderabad and Kashmir, and we could reach an agreement.” Patel’s view at this time and even later was that India’s effort to retain Muslim majority areas against the will of the people was a source not of strength but of weakness to India. He felt that if India and Pakistan agreed to let Kashmir go to Pakistan and Hyderabad to India, the problems of Kashmir and of Hyderabad could be solved peacefully and to the mutual advantage of India and Pakistan.
Chaudhry Muhammad Ali, Emergence of Pakistan, pp. 299-300
اگر پاکستانی لیڈر کا یہ بیان درست ہے تو یہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ خود پاکستانی لیڈروں کا پیدا کیاہوا ہے، نہ کہ ہندستانی لیڈروں کا پیدا کیا ہوا۔
اس سلسلہ میں دوسری مثال وہ ہے جو پاکستان کے ایک معروف لیڈر سردار شوکت حیات خاں کی کتاب میں ملتی ہے۔ ان کی یہ کتاب لاہور سے اردو میں ’’گم گشتہ ٔ قوم‘‘ کے نام سے 460 صفحات پر چھپی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی نام یہ ہے:
The Nation that Lost its Soul.
یہاں اس کتاب کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے:
’’بعد میں کشمیر پر حملہ کے دوران جب ماؤنٹ بیٹن لاہور آیا۔ ایک ڈنر جس میں لیاقت، گورنر مودی اور پنجاب کے چار وزیر موجود تھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کا پیغام پہنچایا۔ پٹیل جو ہندستان کی ایک طاقتور شخصیت تھا اس کا پیغام تھا کہ اس اصول کی پابندی کی جائے جو کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں طے پایا تھا۔ وہ یہ کہ ریاست اپنے باشندوں کی اکثریت اور سرحدوں کے ساتھ ملاپ کی بنا پر پاکستان یا ہندستان کے ساتھ الحاق کریںگی۔ پٹیل نے کہلایا کہ پاکستان کشمیر لے لے اور حیدرآباد دکن کا مطالبہ چھوڑ دے۔ جہاں پر ہندو آبادی کی اکثریت تھی اور جس کا پاکستان کے ساتھ زمینی یا سمندری ذریعے سے کوئی اتصال بھی نہ تھا۔ یہ پیغام دینے کے بعد ماؤنٹ بیٹن گورنمنٹ ہاؤس میں آرام کرنے چلا گیا۔
میں کشمیر آپریشن کا مکمل نگراں تھا۔ میں نے لیاقت علی کے پاس جاکر انہیں تجویز دی کہ ہندستان کی فوج کشمیر میں داخل ہوچکی ہے۔ ہم قبائلیوں کی مدد سے اس کو باہر نکالنے اور کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ یہاں تک کہ ہماری اس وقت کی فوج بھی اس کامیابی کے حصول میں شاید مدد گار ثابت نہ ہو سکے گی۔ لہٰذا ہمیں پٹیل کی پیش کش کو ٹھکرانا نہیں چاہیے۔ نواب زادہ نے میری جانب مڑ کر کہا’’سردار صاحب کیا میں پاگل ہوگیا ہوں کہ میں کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے بدلے ریاست حیدر آباد دکن کو چھوڑ دوں جو پنجاب سے بھی بڑی ریاست ہے‘‘۔
لیاقت علی خاں کے اس رد عمل کو دیکھ کر میں تو سن ہوگیا کہ ہمارا وزیر اعظم ملکی جغرافیہ سے اتنا بے خبر تھا۔ اس کی ذہانت کا یہ معیار کہ وہ حیدرآباد دکن کو کشمیر پر ترجیح دے رہا ہے۔ یہ تو احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ــتھی۔ حیدر آباد کا حصول ایک سراب تھا جب کہ کشمیر مل رہا تھا۔ کشمیر کی پاکستان کے ساتھ اہمیت سے وہ قطعی واقف نہیں تھے۔ چنانچہ احتجاج کے طورپر میں نے کشمیر آپریشن کی نگرانی سے استعفیٰ دے دیا(صفحہ 231-32)۔
پاکستانی لیڈر کے مذکورہ بیان کو اگر درست مان لیاجائے تویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ مکمل طورپر اوریک طرفہ طور پر خود مسلم قیادت کا پیدا کیا ہوا ہے، کسی اور کا نہیں۔ یہاں میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ فطرت کے مسلمہ قانون کے مطابق، کسی شخص یا قوم کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی غلطی کی قیمت دوسرے سے وصول کرسکے۔ اپنی غلطی کی قیمت آدمی کو بہرحال خود ادا کرنا پڑتا ہے، اور یقینی طورپر پاکستان کا اس میں کوئی استثنا نہیں۔