حقیقت پسند بنئے
اپریل 1986ء کے آخری ہفتہ میں امرتسر میں کچھ سکھوں نے بطور خود آزاد خالصتان کے قیام کا اعلان کر دیا۔ عین اسی زمانہ میں میں نے دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس میں ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان یہ تھا—حقیقت کا اعتراف:
Acceptance of Reality.
میرا یہ مضمون پنجاب اور کشمیر دونوں کے بارے میں تھا۔ میں نے پنجابیوں اور کشمیریوں دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ علیٰحدہ پنجاب اور علیٰحدہ کشمیر کی تحریکیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ وہ حقیقت کی چٹان سے ٹکرانے کے ہم معنی ہے۔ اس قسم کی کوشش سے کچھ لوگ اپنا سر تو توڑ سکتے ہیں مگر وہ صورت حال کو بدل نہیں سکتے۔ میں نے دونوں جگہ کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لیں اور صورت موجودہ (status quo) کو مان کر مثبت انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔
سکھ لوگ جلد ہی معاملہ کو سمجھ گئے۔اور انہوں نے اس مسئلہ پراپنی متشددانہ تحریک ختم کردی۔ کشمیر کے لوگ بھی یقینی طورپر آخر کار یہی راستہ اختیار کریں گے مگر اس وقت جب کہ ان پر فارسی کا یہ شعر صادق آچکا ہوگا کہ جو کام ایک عقلمند انسان کرتا ہے وہی کام ایک نادان انسان بھی کرتا ہے ، لیکن کافی نقصان اٹھانے کے بعد :
آں چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابی ٔ بسیار
اس فرق کا سبب غالباً یہ ہے کہ سکھ لوگوں کے پاس اپنی تباہی کو جائز ثابت (justify) کرنے کے لیے کوئی شاندار نظریہ موجود نہ تھا۔جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ایسے شاندار نظریات موجود ہیں جن کے ذریعہ وہ خود کشی کے عمل کو اسلامی شہادت جیسا خوبصورت عنوان دے سکے۔
اس سلسلہ کا ایک تجربہ یہاں قابل ذکر ہے۔ 27 جنوری 1992 کا واقعہ ہے۔ کشمیر کے دو تعلیم یافتہ مسلمان دہلی آئے اور مجھ سے ملاقات کی۔ یہ لوگ خود تو کسی جنگجو تنظیم کے باضابطہ ممبر نہیں تھے مگر وہ کشمیر کی جنگجو تحریک کے پوری طرح حامی تھے۔ وہ عملی جنگجو نہ ہوتے ہوئے بھی پورے معنیٰ میں فکر ی جنگجو تھے۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ آپ لوگوں کی نام نہاد تحریک ِکشمیر کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ وہ نہ جہاد ہے اور نہ اس سے اسلامی نظام قائم ہونے والا ہے۔ اور نہ علیٰحدگی کی کوئی معنویت ہے۔ اس کا نتیجہ بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔ انہوں نے پرجوش طورپر اپنی موجودہ تحریک کی حمایت کی اور دعویٰ کیا کہ ہم جلد ہی ایک عظیم کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے میرے کہنے پر اپنے دستخط کے ساتھ حسب ذیل الفاظ میری ڈائری میں لکھے:
ہندستان سے علیٰحدگی کے بعد جو کشمیر بنے گا ،انشاء اللہ وہ کشمیر اسلامی کشمیر ہوگا۔
اس کے بعد میں نے کہا کہ آپ لوگوں کی یہ بات بے بنیاد خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔ آپ لوگوں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ آپ کے اندازے کتنے زیادہ بے حقیقت تھے۔ پھر میں نے اپنی ڈائری میں ان کے سامنے یہ الفاظ لکھے:
بالفرض اگر کشمیر ہندستان سے علیٰحدہ ہو تو اس کے بعد جو آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر بنے گا وہ ایک برباد کشمیر ہوگا۔ کشمیریوں کے لیے چوائس (choice) ہندستانی کشمیر یا پاکستانی کشمیر میں نہیں ہے۔ بلکہ ہندستانی کشمیر یا برباد کشمیر میں ہے۔
اس واقعہ پر اب دس سال پورے ہورہے ہیں۔ اس دس سالہ تجربہ نے آخری طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ مذکورہ کشمیری مجاہد کے الفاظ فرضی خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہ تھے۔ اس کے برعکس، میں نے جو کچھ اللہ کی توفیق سے کہا وہ آج ایک ناقابل انکار حقیقت بن چکا ہے۔ واقعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ حالات میں کشمیر کا فائدہ نہ آزاد کشمیر بننے میں ہے اور نہ پاکستانی کشمیر بننے میں ۔ کشمیر کا فائدہ ہر اعتبار سے یہ ہے کہ وہ ہندستان کا حصہ بن جائے اور ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرلے۔
کشمیر میں جو لوگ اپنے خیال کے مطابق، جہاد کی تحریک چلارہے ہیں، وہ اپنے آپ کو اسلام پسند کہتے ہیں۔مگر صحیح یہ ہے کہ وہ اسلام پسند بننے سے پہلے حقیقت پسند بنیں۔ اسلام کا قلعہ حقیقت کی زمین پر کھڑا ہوتاہے۔ خوش فہمی کی زمین پر کوئی بھی قلعہ نہیں بن سکتا، نہ اسلام کا اور نہ غیر اسلام کا۔