قرآن و حدیث میں امن کی تعلیم
خود لفظ اسلام میں امن کا مفہوم شامل ہے۔ اسلام کا روٹ ورڈ سِلم ہے۔ سِلم کے معنی امن کے ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام کا مطلب ہے، امن کا مذہب۔ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں ایک عنوان ان الفاظ میں بیان کیا ہے:السَّلاَم مِنَ الإِسْلاَمِ (کتاب الایمان) یعنی سلامتی اسلام کا جزء ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ تین چیزیں ایمان کا جزء ہیں (ثَلَاثٌ مِنَ الْإِيمَان)۔ ان میں سے ایک یہ ہے: وَبَذْلُ السَّلاَمِ لِلْعَالَمِ(مسند البزار، حدیث نمبر 1396)یعنی دنیا میں امن پھیلانا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن و سلامتی ایمان کا جزء ہے۔ اسی طرح حدیث میں ہے:الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِم (سنن النسائی، حدیث نمبر 4995)۔ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے لوگمحفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے جان و مال کے معاملے میں امن سے رہیں۔
قرآن میں اللہ کے جو نام (صفت) بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک السلام (59:23) ہے،یعنی امن و سلامتی۔ گویا اللہ کی ذات خود صفت امن کا مظہر ہے۔ حدیث میں آیا ہے : إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلاَمُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر831)۔ یعنی اللہ خود سلامتی ہے۔اسی طرح اللہ کی ہدایت کو قرآن میں سُبُلَ السَّلَامِ (5:16) کہا گیا ہے۔ یعنی امن کے راستے۔ اسلام کے مطابق، جنت انسان کے قیام کی معیاری جگہ ہے، اور قرآن میں جنت کو دار السلام ( 10:25) کہا گیا ہے۔ یعنی امن کا گھر۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کا قول ایک دوسرے کے لیے سلامتی سلامتی (الواقعہ 26) ہوگا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ اہل جنت کا اجتماعی کلچر پیس کلچر ہوگا۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:وَالصُّلْحُ خَيْرٌ (4:128)۔ یعنی صلح کی روش اپنے نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اللہ نے مصالحانہ طریقِ عمل پر وہ کامیابی مقدر کردی ہے جو اس نے غیر مصالحانہ یا متشددانہ طریقِ عمل پر مقدر نہیں کی۔
پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ بنت ابی بکر اجتماعی معاملات میں آپ کی جنرل پالیسی کو اس طرح بیان کرتی ہیں:مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا (صحيح البخاري، حديث نمبر 3560؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2327)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان کا انتخاب کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب پُرامن عمل(peaceful activism) دستیاب ہو تو پُر تَشدد ایکٹوزم (violent activism) کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ پُر امن عمل کی حیثیت مقابلۃ ً آسان انتخاب (easier option) کی ہے اور پُر تشدد عمل کی حیثیت مقابلۃً مشکل انتخاب (harder option) کی۔
مثلاً کسی تحریک کے پہلے ہی مرحلہ میں اسٹیٹس کو کو بدلنے کی کوشش کرنا مشکل انتخاب ہے اور اسٹیٹس کو کو بدلے بغیر حاصل شدہ دائرہ میں اپنا عمل جاری کرنا آسان انتخاب ۔ نزاع کے موقع پر لڑجانا مشکل انتخاب ہے اور نزاع کے موقع پر صلح کرلینا آسان انتخاب۔ حریف کے مقابلہ میں متشددانہ طریقِ کار کو اپنانا مشکل انتخاب ہے اور حریف کے مقابلہ میں پر امن طریقِ کار کو اپنانا آسان انتخاب۔ جارحیت کا جواب جارحیت سے دینا مشکل انتخاب ہے اور جارحیت کا جوا ب صبر و تحمل سے دینا آسان انتخاب۔ مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں ہنگامہ آرائی کا انداز اختیار کرنا مشکل انتخاب ہے اور مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں خاموش تدبیر اختیار کرنا آسان انتخاب۔ اصلاح کے لیے ریڈیکل طریقہ اختیار کرنا مشکل انتخاب ہے اور اصلاح کے لیے تدریجی طریقہ اختیار کرنا آسان انتخاب۔نتیجہ کی پروا کیے بغیر پر جوش اقدام کرنا مشکل انتخاب ہے اور نتیجہ کو سامنے رکھتے ہوئے حکیمانہ اقدام کرنا آسان انتخاب۔ حکمرانوں سے محاذ آرائی کرنا مشکل انتخاب ہے اور حکمرانوں سے اعراض کرتے ہوئے تعلیم و تربیت کے دائرہ میں اپنے عمل کا آغاز کرنا آسان انتخاب۔ ان چند مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث کے مطابق، اختیار ایسر کیا ہے اور اختیار اعسر کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا (exception) کی۔ اسلام کی تمام تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی عملی زندگی اس کی تصدیق کرتی ہے۔