دشمن سے ٹکراؤ نہیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدو،وسلوا اللہ العافیۃ(صحيح البخاري، حديث نمبر 2966)۔ یعنی دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، تم اللہ سے امن مانگو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر تمہارا دشمن بن جائے تو ایسا نہ کرو کہ تم بھی اُس کے دشمن بن کر اُس سے لڑناشروع کردو۔ بلکہ فریق ثانی کی دشمنی کے باوجود تم اُس کے ساتھ اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ دشمنی کے حالات کے باوجود تمہارا طریقہ لڑائی سے بچنے کاہونا چاہیے، نہ کہ اپنے آپ کو لڑائی میں پھنسالینے کا۔
اللہ سے امن مانگو— اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ٹکراؤ کے بجائے امن کا راستہ اختیار کرو اور اپنی امن پسندانہ کوششوں کے ساتھ خدا کو بھی دعاؤں کے ذریعہ اُس میں شامل کرو۔ تمہاری دعا یہ نہیں ہونی چاہیے کہ خدایا، دشمن کو ہلاک کردے بلکہ یہ ہونی چاہیے کہ خدایا، مجھے توفیق دے کہ میں لوگوں کی دشمنی کے باوجود تشد د اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کروں بلکہ امن کے راستہ پر اپنی زندگی کا سفر طے کرتارہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے نقشہ کے مطابق، اس دنیا میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور تشدد کی حیثیت صرف ایک استثنا (exception) کی۔ مزید اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بظاہر کوئی شخص یا گروہ آپ کا دشمن ہو تواُس سے نپٹنے کی صرف یہی ایک شکل نہیں ہے کہ اُس سے مڈبھیڑ کی جائے۔ زیادہ بہتر اور مؤثر شکل یہ ہے کہ امن کی تدبیر سے دشمن کے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ امن کی طاقت تشدد کی طاقت کے مقابلہ میں ، زیادہ کارگر بھی ہے اور زیادہ مفید بھی۔