شدت پسندی نہیں
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ(4:171) یعنی تم اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ یہی بات حدیث میں بھی آئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ؛ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ ۔ (سنن النسائي حديث نمبر 3057؛ سنن ابن ماجه، حديث نمبر 3029؛ مسند احمد، حديث نمبر 1851) یعنی تم لوگ دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔
غلو کا مطلب شدت یا انتہا پسندی (extremism) ہے۔ غلو ہر معاملہ میں غلط ہے۔ غلو دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔ غلو کا یہی مزاج بڑھ کر تشدد اور لڑائی تک پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ غلو کی نفسیات کا شکار ہوں وہ اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اعتدال کی روش پرقانع نہیں ہوتے۔ وہ امن اور اعتدال کی روش کو معیار سے کم سمجھتے ہیں اس لیے وہ نہایت آسانی کے ساتھ تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ وہ مقصد کے حصول کے نام پر لڑائی شروع کردیتے ہیں۔
غلو کی ضد اعتدال ہے۔ جب لوگوں کے اندر اعتدال کی نفسیات ہو تو وہ ہمیشہ امن کے انداز میں سوچیں گے، وہ اپنی جدوجہد کوپر امن جدو جہد کے طورپر چلائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتدال اور امن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہایت گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں اعتدال ہوگا وہاں امن ہوگا۔ جہاں امن ہوگا وہاں اعتدال پایا جائے گا۔
اس کے برعکس غلو کی نفسیات ہمیشہ آدمی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے، اور انتہاپسندی نہایت آسانی کے ساتھ تشدد اور ٹکراؤ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ غلو اور تشدد دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں غلو کو بہت زیادہ ناپسند کیا گیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ غلو پسندی کا دوسرا نام تشدد پسندی ہے۔ اور غلو نہ کرنے کا دوسرا نام اعتدال پسندی ۔