جہاد کا تصور اسلام میں
جہاد کا مادہ جہد ہے۔ جہد کے معنی ہیں کوشش کرنا (to strive, to struggle)۔ اس لفظ میں مبالغہ کا مفہوم ہے یعنی کسی کا م میں اپنی ساری کوشش صرف کردینا۔ عربی میں کہا جاتا ہے کہ ’بَذَلَ جُهْدَه‘ یا ’ بَذَلَ مَجْهُودَه‘ یعنی اس نے اپنی پوری طاقت صرف کردی۔ لسان العرب میں ہے کہ :وجَهَدَ الرَّجُلُ فِي كَذَا أَي جدَّ فِيهِ وَبَالَغَ (جلد3، صفحہ133) آدمی نے فلاں معاملہ میں جدو جہد کی، یعنی اس میں مبالغہ کی حد تک کوشش کر ڈالی۔
جہاد مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی کسی کام میں اپنی ساری ممکن کوشش صرف کرنا۔ لسا ن العرب میں ہے : الجِہَاد:الْمُبَالَغَةُ وَاسْتِفْرَاغُ الْوُسْعِ فِي الْحَرْبِ أَو اللِّسَانِ أَو مَا أَطاق مِنْ شَيْء(جلد3، صفحہ135) ۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ( 22:78) یعنی اللہ کی راہ میں خوب کوشش کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔
عربی زبان میں جہاد اصلاً صرف کوشش یا بھر پور کوشش کے معنیٰ میں ہے۔ دشمن سے جنگ بھی چوں کہ کوشش کی ایک صورت ہے اس لیے توسیعی مفہوم کے اعتبارسے دشمن کے ساتھ جنگ کو بھی جہاد کہہ دیا جاتا ہے۔ تاہم اس دوسرے مفہوم کے لیے عربی میں اصل لفظ قتال ہے، نہ کہ جہاد۔
دشمن سے جنگ ایک اتفاقی واقعہ ہے جو کبھی پیش آتا ہے اور کبھی پیش نہیں آتا۔ لیکن جہاد ایک مسلسل عمل ہے جو مومن کی زندگی میں ہر دن اور ہر رات جاری رہتا ہے، وہ کبھی ختم نہیںہوتا۔ وہ مستقل جہاد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں اللہ کی مرضی پر قائم رہے۔ اس قیام میں جو چیزبھی رکاوٹ ہو اس کو اپنی زندگی پر اثر انداز نہ ہونے دے۔ مثلاً نفس کی خواہش، مفاد کی طلب، رسم ورواج کا زور، مصلحتوں کے تقاضے، ذاتی انا کا مسئلہ، مال کی حرص، وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں عمل صالح کے لیے رکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس قسم کی تمام رکاوٹوںکو زیر کرتے ہوئے اللہ کے حکم پر قائم رہنا، یہی اصل جہاد ہے، اور یہی جہاد کا ابتدائی مفہوم ہے۔ اس جہاد کے بارے میں حدیث میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ مثلاً مسند امام احمد کی چند روایتیں یہ ہیں:
الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ لِلَّهِ (مسند احمد، حديث نمبر 23951)
االْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (مسند احمد، حديث نمبر 23965)
الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ (مسند احمد، حديث نمبر 23958)
موجودہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں کا پورا ماحول اس طرح بنایا گیا ہے کہ آدمی مسلسل طورپر آزمائش کے حالات سے گزرتا رہے۔ ان آزمائشی مواقع پر آدمی کو طرح طرح کی رکاوٹوں کا سامنا پیش آتا ہے۔ مثلاً ایک حق اس کے سامنے آئے مگر اس کا اعتراف کرنے میں اپنا درجہ نیچا ہوتا ہوا دکھائی دے، کسی کا مال آدمی کے قبضہ میں ہو اور اس کو حقدار کی طرف واپس کرنے میں اپنا نقصان نظر آتا ہو، تواضع کی مطلوب زندگی گذارنے میں اپنے نفس پر جبر کرنا پڑے، غصہ اور انتقام کے جذبات کو برداشت کرنا اپنی نفی کے ہم معنیٰ بن گیا ہو، انصاف کی بات بولنے میں یہ اندیشہ ہو کہ لوگوں کے درمیان مقبولیت ختم ہوجائے گی، خودغرضانہ کردار کے بجائے با اصول کردار اختیار کرنے میں سہولیات سے محرومی نظر آتی ہو، وغیرہ۔
اس طرح کے مختلف مواقع پر بار بار آدمی کو اپنی خواہش کو دبانا پڑتا ہے۔ اپنی نفسیات کی قربانی دینا ضروری ہوجاتاہے۔ حتی کہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنی انا کو ذبح کرنا پڑے گا۔ اس طرح کے تمام مواقع پر ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے اور ہر نقصان کو جھیلتے ہوئے حق پر قائم رہنا یہی اصلی اور ابتدائی جہاد ہے۔ جو لوگ اس جہاد پر قائم رہیں وہی آخرت میں جنت کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
جہاد اصلاً پُرامن جدوجہد کا عمل ہے۔ اسی پُر امن جدو جہد کی ایک صورت وہ ہے جس کو دعوت و تبلیغ کہا جاتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (25:52) یعنی منکرین کی اطاعت نہ کرو اور ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ باطل جوبات ان سے منوانا چاہتے ہیں اس کو ہر گز نہ مانو۔ بلکہ قرآن کی تعلیمات کو لے کر ان کے خلاف دعوت و تبلیغ کا عمل کرو اور اس عمل میں اپنی آخری کوشش صرف کردو۔ اس آیت میں جہاد سے مراد کوئی عسکری عمل نہیں ہے بلکہ اس سے مراد تمام تر فکری اور نظریاتی عمل ہے۔ اس عمل کو ایک لفظ میں ابطال باطل اور احقاق حق کہا جاسکتا ہے۔
جہاد بمعنیٰ قتال بھی اپنے ابتدائی مفہوم کے لحاظ سے پُر امن جدوجہد ہی کا دوسرا نام ہے۔ دشمن کی طرف سے اگر فوجی اور عسکری چیلنج دیا جائے تب بھی اولاً ساری کوشش اس بات کی کی جائے گی کہ اس کا جواب پُر امن طریقہ سے دیا جائے۔ پُر امن طریقہ کو صرف اُس وقت ترک کیا جائے گا جب کہ اس کو استعمال کرنا ممکن ہی نہ ہو، جب کہ قتال کے جواب میں قتال ہی واحد ممکن انتخاب کی صورت اختیار کرلے۔
اس معاملہ میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہمارے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا: ما خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین إلا اختار أیسرھما (صحيح البخاري، حديث نمبر 3560؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2327؛ ابو داؤد، حديث نمبر 4785؛ سنن ابن ماجه، حديث نمبر 1984؛ مسند احمد، حديث نمبر 24549) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوتا توآپ ہمیشہ آسان کا انتخاب کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب کسی معاملہ میں دو امکانی انتخاب ہوتا ، ایک آسان انتخاب (easier option)اور دوسرا مشکل انتخاب(harder option) تو آپ ہمیشہ مشکل انتخاب کو چھوڑ دیتے اور جو آسان ہوتا اس کو اختیار فرما لیتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کا تعلق زندگی کے صرف عام معاملات سے نہ تھا بلکہ جنگ جیسے سنگین معاملہ سے بھی تھا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مشکل انتخاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی سیرت کا مطالعہ بتا تا ہے کہ آپ نے کبھی خود اپنی طرف سے جنگ کا اقدام نہیں کیا۔ اور جب آپ کے مخالفین کی طرف سے آپ کو جنگ میں الجھانے کی کوشش کی گئی تو آپ نے ہمیشہ اعراض کی کوئی تدبیر اختیار کرکے جنگ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ آپ صرف اُس وقت جنگ میں شریک ہوئے جب کہ دوسرا کوئی راستہ سرے سے باقی ہی نہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق، اسلام میں جارحانہ جنگ نہیں ہے، اسلام میں صرف مدافعانہ جنگ ہے اور وہ بھی صرف اس وقت جب کہ اس سے بچنا سرے سے ممکن ہی نہ رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ دو میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ رہتا ہے— پُرامن جدو جہد، اور پُر تشدد جدو جہد۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اور ہر معاملہ میں یہی کیا کہ پُر تشدد طریق کار کو چھوڑ کر پُر امن طریق کار کو اختیار فرمایا۔ آپ کی پوری زندگی اسی اصول کا ایک کامیاب عملی نمونہ ہے۔ یہاں اس نوعیت کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
1۔ پیغمبری ملنے کے بعد فوراً ہی آپ کے سامنے یہ سوال تھا کہ آپ مذکورہ دونوں طریقوں میں سے کس طریقہ کو اختیار کریں۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر کی حیثیت سے آپ کا مشن یہ تھا کہ شرک کو ختم کریں اور توحید کو قائم فرمائیں۔ مکہ میں کعبۃ اللہ اسی توحید کے مرکز کے طورپر بنایا گیا تھا مگر آپ کی بعثت کے وقت کعبہ میں 360 بت رکھ دیے گئے تھے۔ اس لحاظ سے بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ قرآن میں سب سے پہلے اس طرح کی کوئی آیت اترتی کہ : طَهِّرْ الکَعْبَۃَ مِنْ الأصْنَامِ (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو) اور اس کو دوبارہ مرکز توحید بنا کر اپنے مشن کو آگے بڑھاؤ۔
مگر کام کا یہ آغاز قریش سے جنگ کرنے کے ہم معنیٰ تھا، جن کی قیادت عرب میں اسی لیے قائم تھی کہ وہ کعبہ کے متولی بنے ہوئے تھے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے کعبہ کی عملی تطہیر کے معاملہ سے مکمل طورپر احتراز فرمایا اور اپنے آپ کو صرف توحید کی نظری دعوت تک محدود رکھا۔ یہ گویا پُر تشدد طریق کار کے مقابلہ میں پُر امن طریقِ کار کی پہلی پیغمبرانہ مثال تھی۔
2 ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پُر امن اصول پر قائم رہتے ہوئے تیرہ سال تک مکہ میں اپنا کام کرتے رہے۔ مگر اس کے باوجود قریش آپ کے دشمن بن گئے۔ یہاں تک کہ ان کے سرداروں نے باہمی مشورہ سے یہ طے کیا کہ سب مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں۔ چنانچہ انہوں نے تلواروں سے مسلح ہوکر آپ کے گھر کو گھیر لیا۔
یہ گویارسول اور اصحاب رسول کے لیے جنگ کا کھلا چیلنج تھا۔ مگرآپ نے اللہ کی رہنمائی کے تحت یہ فیصلہ فرمایا کہ جنگی مقابلہ سے اعراض کریں۔ چنانچہ آپ رات کے سناٹے میں مکہ سے نکلے اور خاموشی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے مدینہ پہنچ گئے۔ اس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں ہجرت کہا جاتا ہے۔ ہجرت واضح طورپر پُر تشدد طریقِ کار کے مقابلہ میں پُر امن طریقِ کار کو اختیار کرنے کی ایک مثال ہے۔
3 ۔ غزوہ ٔ خندق یا غزوہ ٔاحزاب بھی اسی سنت کی ایک مثال ہے۔ اس موقع پر مختلف قبائل کے لوگ بہت بڑی تعداد میں جمع ہوکر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ واضح طورپر آپ کے مخالفین کی طرف سے ایک جنگی چیلنج تھا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے بچنے کے لیے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ رات دن کی محنت سے اپنے اور مخالفین کے درمیان ایک لمبی خندق کھوددی ۔ اس وقت کے حالات میں یہ خندق گویا ایک حاجز یا ٹکر روک طریقہ (buffer) تھا۔ چنانچہ قریش کا لشکر خندق کے دوسری طرف کچھ دن ٹھہرا رہا اور اس کے بعد واپس چلا گیا۔ یہ خندق بھی گویا پرُتشدد عمل کے مقابلہ میں پُر امن عمل کا انتخاب لینے کی ایک مثال ہے۔
4۔ اسی طرح صلح حدیبیہ بھی اسی قسم کی ایک سنت کی حیثیت رکھتی ہے۔ حدیبیہ کے موقع پر یہ صورت تھی کہ رسول اور اصحاب رسول مکہ میں داخل ہو کر عمرہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر مکہ کے سرداروں نے حدیبیہ کے مقام پر آپ کو روک دیا اور کہا کہ آپ لوگ مدینہ واپس جائیں۔ ہم کسی قیمت پر آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ یہ گویا قریش کی طرف سے آپ کے لیے ایک جنگی چیلنج تھا۔ اگر آپ اپنے ارادہ کے مطابق عمرہ کرنے کے لیے مکہ کی طرف بڑھیں تو یقینی تھا کہ قریش سے جنگی ٹکراؤ پیش آئے گا۔ مگر آپ نے حدیبیہ پر اپنا سفر ختم کردیا اورقریش کی یک طرفہ شرطوں پر امن کا معاہدہ کرکے مدینہ واپس آگئے۔ یہ بھی واضح طورپر تشدد کے مقابلہ میں امن کا طریقہ اختیار کرنے کی ایک پیغمبرانہ مثال ہے۔
5 ۔ فتح مکہ کے واقعہ سے بھی آپ کی یہی سنت ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت آپ کے پاس جاں نثار صحابہ دس ہزار کی تعداد میں موجود تھے۔ وہ یقینی طورپر قریش سے کامیاب لڑائی لڑ سکتے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال طاقت کے بجائے مظاہرۂ طاقت کا طریقہ اختیار فرمایا ۔ آپ نے ایسا نہیں کیا کہ دس ہزار افراد کی اس فوج کو لے کر اعلان کے ساتھ نکلیں اور قریش سے جنگی تصادم کرکے مکہ پر قبضہ حاصل کریں۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ کامل رازداری کے ساتھ سفر کی تیاری کی اور اپنے اصحاب کے ساتھ سفر کرتے ہوئے نہایت خاموشی کے ساتھ مکہ میں داخل ہوگئے۔ آپ کا یہ داخلہ اتنا اچانک تھا کہ قریش آپ کے خلاف کوئی تیاری نہ کرسکے اور مکہ کسی خونی تصادم کے بغیر فتح ہوگیا —یہ بھی پُر تشدد طریقِ کار کے مقابلہ میں پُر امن طریق کار کو اختیار کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ ان چند مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف عام حالات میں بلکہ انتہائی ہنگامی حالات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے مقابلہ میں امن کے اصول کو اختیار فرمایا۔ آپ کی تمام کامیابیاں اسی سنتِ امن کی عملی مثالیں ہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اسلام میں امن کی حیثیت حکم عام کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف مجبورانہ استثنا کی۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے اور پھر یہ دیکھیے کہ موجودہ زمانہ میں صورت حال کیا ہے۔ اس معاملہ میں جدید دور قدیم دور سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ قدیم زمانہ میں پُر تشدد طریقِ کار ایک عام رواج کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور امن کا طریقہ اختیار کرنا بے حد مشکل کام تھا۔ مگر اب صورت حال یکسر طورپر بدل گئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں پُر تشدد طریقِ کار آخری حد تک غیرمطلوب اور غیر محمود بن چکا ہے۔ اس کے مقابلہ میں پُر امن طریقِ کار کو واحد پسندیدہ طریقِ کار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ زمانہ میں پُر امن طریقِ کار کو ایسی فکری اور عملی تائیدات حاصل ہوگئی ہیں جنہوں نے پُر امن طریقِ کار کو بذاتِ خود ایک انتہائی طاقتور طریقِ کار کی حیثیت دے دی ہے۔
ان جدید تائیدات میں بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ مثلاً اظہار رائے کی آزادی کا حق، جدید کمیونی کیشن کے ذریعہ اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے امکانات، میڈیا کی طاقت کو اپنے حق میں استعمال کرنا، وغیرہ۔ ان جدید تبدیلیوں نے پُر امن طریقِ کار کو بیک وقت مقبول طریق کار بھی بنا دیا ہے اور اسی کے ساتھ زیادہ مؤثر طریق کار بھی۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جب پُر امن طریقِ کار عملاً دستیاب (available) ہو تو اسلامی جدوجہد میں صرف اسی کو اختیار کیا جائے گا، اور پُرتشدد جدوجہد کو ترک کردیا جائے گا۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پُر امن طریقِ کار نہ صرف مستقل طورپر دستیاب ہے، بلکہ مختلف تائیدی عوامل (supporting factors) کی بنا پر وہ بہت زیادہ مؤثر حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ کہنا بلا مبالغہ درست ہوگا کہ موجودہ زمانہ میں پُر تشدد طریق کار مشکل ہونے کے ساتھ عملاً بالکل غیرمفید ہے، اس کے مقابلے میں پُر امن طریق کار آسان ہونے کے ساـتھ انتہائی مؤثر اور نتیجہ خیز ہے۔ اب پُر امن طریقِ کار کی حیثیت دو امکانی انتخابات (possible options) میں سے صرف ایک انتخاب کی نہیں ہے بلکہ وہی واحد ممکن اور نتیجہ خیز انتخاب ہے۔ایسی حالت میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ اب پرتشدد طریقِ کار عملاً متروک قرار پاچکا ہے، یعنی وہی چیز جس کو شرعی زبان میں منسوخ کہا جاتا ہے۔ اب اہل اسلام کے لیے عملی طورپر ایک ہی طریقِ کار کا انتخاب باقی رہ گیا ہے، اور وہ بلاشبہ پُر امن طریقِ کار ہے، إلاّیہ کہ صورتِ حال میں ایسی تبدیلی پیدا ہو جو دوبارہ حکم کو بدل دے۔
یہ صحیح ہے کہ پچھلے زمانہ میں بعض اوقات پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کیا گیا مگر اس کی حیثیت زمانی اسباب کی بنا پر صرف ایک مجبورانہ انتخاب کی تھی۔ اب جب کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں یہ مجبوری باقی نہیں رہی تو پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کرنا بھی غیر ضروری اور غیرمسنون قرار پاگیا۔ اب نئے حالات میں صرف پُر امن طریقِ کار کا انتخاب کیا جائے گا۔جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے، جہاد کے معاملہ میں امن کی حیثیت عموم کی ہے، اور جنگ کی حیثیت صرف ایک نادر الوقوع استثنا کی ۔
موجودہ زمانہ میں اس معاملہ کی ایک سبق آموز مثال ہندستانی لیڈر مہاتما گاندھی (وفات 1948) کی زندگی میں ملتی ہے۔ اسی زمانی تبدیلی کی بنا پر مہاتما گاندھی کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ ہندستان میں ایک مکمل قسم کی سیاسی لڑائی لڑیں اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچائیں۔ اور یہ سب کچھ شروع سے آخر تک عدم تشدد کا طریقہ(non-violent method) اور پُر امن عمل (peaceful activism) کے اصول کو اختیار کرکے انجام پایا۔
فقہ کا یہ ایک معلوم اصول ہے کہ:تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان (ديکھيے ابن قيم الجوزيہ، اغاثة اللهفان، جلد 1، ص 330) يعني زمانہ اور مکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ اس مسلّمہ فقہی اصول کا تقاضاہے کہ جب زمانی حالات بدل چکے ہوں تو شرعی احکام کا ازسر نو انطباق (re-application) تلاش کیا جائے، تاکہ شرعی حکم کو زمانی حالات سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ اس فقہی اصول کا تعلق جس طرح دوسرے معاملات سے ہے اسی طرح یقینی طور پراس کا تعلق جنگ کے معاملہ سے بھی ہے۔ اس اصول کا بھی یہ تقاضا ہے کہ پُر تشدد طریقِ کار کو اب عملاً متروک قرار دیاجائے اور صرف پُر امن طریقِ کار کو شرعی جواز کا درجہ دیا جائے۔