صبر ترقی کا راز
قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے کہ : وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (8:46) یعنی تم صبر کرو کیوں کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: وَاعْلَمْ أنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (مسند احمد، حديث نمبر 2803) یعنی جان لو کہ بے شک ناپسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں تمہارے لیے بہت بھلائی ہے۔ اور کامیابی صبر کے ساتھ ہے اور کشادگی مشقت کے ساتھ ہے۔ اور مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کے سامنے مشکل حالات آئیں یا اُس کو کوئی تلخ تجربہ پیش آئے تو وہ گھبرا اُٹھتا ہے اور بعض اوقات تشدد پر اُتر آتا ہے۔ مگر اس قسم کا ردِّ عمل فطرت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کا قانون ہمیشہ اُن لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو حق اور انصاف پر ہوں۔ حق پرست فرد یا گروہ اگر جلد بازی نہ کرے اور صبر سے کام لے تو کامیابی اپنے آپ اُس کی طرف چلی آتی ہے۔
بیشتر حالات میں ناکامی اُن لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جو جلد بازی سے کام لیں اور قبل از وقت پُر جوش اقدام کر بیٹھیں۔ اس کے برعکس جو لوگ صبر کا طریقہ اختیار کریں اُن کے لیے ہمیشہ ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اُن کو کامیابی کی منزل تک پہنچا دیں۔
قرآن کے مطابق، صبر کا اُلٹا عجلت ہے (الاحقاف ، 46:35)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص صبر کی روش اختیار کرتا ہے تو وہ فطرت کے نقشہ کی پیروی کررہا ہوتا ہے۔ اور جب وہ عجلت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ فطرت کے نقشہ سے ہٹ جاتا ہے اور جو آدمی فطرت کے نقشہ سے ہٹ جائے اُس کے لیے خداکی اس دنیا میں کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔