جہاد قرآن میں
قرآن میں بھی جہاد یا اس کے مشتقات اسی معنی میں آئے ہیں جس معنی میں وہ لغتِ عرب میں استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی کسی مقصد کے لیے مبالغہ آمیز کو شش کرنا۔ لفظ’’جہاد‘‘ قرآن میں چار بار استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ یہ لفظ کوشش اور جدوجہد کے معنی میں ہے، نہ کہ براہِ راست طور پر جنگ و قتال کے معنی میں ۔
اس سلسلہ میں پہلی قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہے: کہو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، یہ سب تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمان لوگوں کو راستہ نہیں دیتا ( 9:24)۔
اس آیت میں اہل اسلام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ قربانی کی حد تک جاکر اسلام کے دعوتی مشن میں پیغمبر کا ساتھ دیں۔ خواہ اس کام میں ان کے ذاتی مفادات مجروح ہوں یا مال اور تجارت کا نقصان ہو یا جسمانی مشقتیں برداشت کرنی پڑیں، ہر حال میں وہ اس دعوتی مشن میں پیغمبر کے ساتھی بنے رہیں۔ اس آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کا لفظ اصلاً پیغمبر کے دعوتی مشن کے لیے آیا ہے، نہ کہ جنگ کے لیے۔
قرآن کی سورہ الفرقانمیں حکم دیا گیا ہے کہ: تم منکرین کی بات نہ مانو اور ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرو(25:52)۔ اس آیت میں واضح طور پر جہاد سے مراد دعوتی جہاد ہے ۔ کیوں کہ قرآن کے ذریعہ جہاد کا کوئی دوسرا مطلب نہیں ہو سکتا۔ یہ لفظ تیسری جگہ قرآن میں اس طرح آیا ہے :إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي (60:1)۔ یعنی اگر تم میری راہ میں جہاد اور میری رضا مندی کی طلب کے لیے نکلے ہو۔ یہ آیت فتح مکہ سے کچھ پہلے اتری۔ مدینہ سے مکہ کا سفر جنگ کے لیے نہ تھا۔ وہ دراصل ایک پر امن مارچ تھا جو صلح حدیبیہ کی صورت میں نکلنے والے پر امن نتائج کو حاصل کرنے کے لیے کیا گیا۔چنانچہ اس موقع پر ایک مسلمان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:الیوم یوم الملحمۃ( آج کا دن لڑائی کا دن ہے)۔ یہ سن کر رسول اللہ نے فرمایا کہ نہیں، آج کا دن رحمت کا دن ہے:الیوم یوم المرحمۃ (كتاب المغازي للواقدي، جلد 2، صفحات 821-822)۔چوتھی بار قرآن میں یہ لفظ اس طرح آیا ہے:وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ(22:78) یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔ اس آیت میں جہاد سے مراد دعوتی جہاد ہے۔ یہ حقیقت اس کے سیاق سے بالکل واضح ہے۔