حل کی طرف

موجودہ حالت میں پاکستان کے لیے جو انتخاب (choice) ہے وہ جمہوری حکومت اور فوجی حکومت کے درمیان نہیںہے بلکہ حقیقی انتخاب جن دو حالتوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ پاکستان کا سفر جس بند گلی (impasse) پر آکر رک گیا ہے وہاں سے وہ اپنے آپ کو نکال کر اپنا سفر دوبارہ شروع کرے یا وہ اسی بند گلی میں بدستور پڑا رہے۔ یہاں تک کہ وہ قوموں کے عالمی روڈمیپ سے غیر موجود ہوجائے۔

کسی قوم کی زند گی میں بعض اوقات ایسا لمحہ آتا ہے جب کہ قوم کا ترقیاتی سفر رک جاتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا جائے تاکہ دوبارہ قوم کا سفر معتدل انداز میں جاری ہوسکے۔ اس قسم کا نازک فیصلہ اکثر اوقات عوامی جذبات کے خلاف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا جرأت مندانہ فیصلہ اکثر ایسے افراد کرتے ہیں جو فوجی حکمراں کی حیثیت رکھتے ہوں۔ جمہوری حکمراں اس قسم کا جرأت مندانہ فیصلہ نہیں لے سکتا۔ کیوں کہ وہ عوام کی رایوں سے چن کر حکومت تک پہنچتا ہے ، اس بنا پر اس کے لیے ایسا کوئی انقلابی فیصلہ لینا ناممکن ہو جاتا ہے جو عوامی احساسات سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔

یہاں میں اس نوعیت کی دومثالیں پیش کروں گا۔ مسلم تاریخ میں اس کی ایک مثال صلاح الدین ایوبی (وفات 1193ء ) کی ہے۔ صلاح الدین کا یہ عظیم کارنامہ سمجھا جاتا ہے کہ اس نے صلیبی قوموں کی فوجی یلغار سے مسلم دنیا کو بچایا۔ مگر صلاح الدین کو یہ طاقتور حاکمانہ حیثیت کیسے ملی جب کہ وہ اپنا یہ عظیم رول ادا کرسکے۔ جیسا کہ معلوم ہے، صلاح الدین ایوبی مصر کے سلطان نورالدین محمود زنگی کا ایک فوجی افسر تھا۔ سلطان نور الدین (1118-1174ء)کی موت کے بعد اگر چہ اس کے بیٹے موجود تھے، لیکن صلاح الدین نے حکومت پر قبضہ کر کے سلطان کا منصب حاصل کر لیا۔ مسلم مورخین نے عام طورپر صلاح الدین کے اس قبضہ کی کارروائی کو جائز قرار دیا ہے۔ کیوں کہ یہ قبضہ اگر چہ بظاہر غیرآئینی تھا لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ ایک عظیم سیاسی فائدہ کا سبب بنا۔ اسی نے صلاح الدین ایوبی کے لیے اس امر کو ممکن بنایا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اپنا وہ عظیم کردار ادا کرسکے جو کہ اس نے اس کے بعدادا کیا۔

دوسری مثال فرانس کے چارلس ڈیگال (وفات 1970) کی ہے۔ وہ فرانس کی فوج میں ایک جنرل تھا۔ اس کے بعد اس نے حالات سے فائدہ اٹھا کر فرانس کے سیاسی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر یہ ایک غیر جمہوری عمل تھا مگر فرانس کی نجات کے لیے ڈیگال نے ایک ایسا کام کیا جو کوئی جمہوری حکمراں نہیں کرسکتا تھا۔

کیوں کہ جو حکمراں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے وہ عوامی جذبات کو نظر انداز کرکے کوئی جرأت مندانہ فیصلہ نہیں لے سکتا۔ جب کہ بعض حالات میں کسی قوم کی نجات کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ عوامی جذبات کو نظر انداز کرکے ایک جرأت مندانہ فیصلہ لیا جائے۔

جیسا کہ معلوم ہے، اس وقت فرانس نے افریقہ کے کئی ملکوں مثلاً الجزائر ،وغیرہ پر قبضہ کر رکھا تھا اور ان کو فرانس کے صوبے(provinces) کہتا تھا۔ یہ غیر حقیقت پسندانہ پالیسی فرانس کے لیے اتنی زیادہ مہلک ثابت ہوئی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاری ہونے والی ترقیاتی دوڑ میں وہ یورپ کا ایک ’’مرد بیمار‘‘ بن گیا۔ ڈیگال نے قومی جذبات سے الگ ہو کر اس مسئلہ پر غور کیا۔ اس کی سمجھ میں آیا کہ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ افریقہ کی فرانسیسی کالونیوں کو یک طرفہ طورپر آزاد کردیا جائے۔ یہ اقدام فرانس کے عوام کے جذبات کے سراسر خلاف تھا مگر یہی وہ غیرمقبول فیصلہ ہے جس نے فرانس کو جدید ترقیاتی دوڑ میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت دے دی۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال بھی تقریباً یہی ہے۔ کشمیر کے سوال پر انڈیا کے خلاف پاکستان کی بلا اعلان جنگ(undeclared war) نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔دنیا اس کو ایک غیرمحفوظ ملک کے طورپر دیکھتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری (investment) کے لیے تیار نہیں۔ پاکستانی عوام کی بے چینی نے ملک میں بد امنی جیسی صورت حال پیدا کردی ہے۔ ملک کے مذہبی اور تعلیمی اور ثقافتی ادارے تخریبی سرگرمیوں کے مرکزبن گئے ہیں۔

ان خرابیوں کا سب سے زیادہ اندوہناک انجام وہ ہے جس کو برین ڈرین(brain drain) کہا جاتا ہے۔ انسان فطر ی طور پر ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اس لیے کسی ملک کی ترقی کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ وہاں لوگوں کو عمل کے کھلے مواقع دکھائی دیتے ہوں۔ مثلاً وہاں امن ہو، بہترین انفراسٹرکچر(infrastructure) ہو۔ آدمی کو اپنی محنت کا پورا صلہ ملتا ہوا نظر آئے۔اگر کسی ملک میں یہ مواقع پوری طرح موجود ہوں تو اس ملک میں ہر آدمی اپنے آپ سرگرم ہو جائے گا اور ملک خود بخود ترقی کرنے لگے گا۔ مگربدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان میں ’’پہلے صورت موجودہ  (status quo) کو بدلو‘‘ کے نظریہ کے نتیجہ میں مسلسل طورپر ہنگامی صورت حال باقی ہے۔ وہاں عملی طور پر افراد کے لیے حسب حوصلہ کام کے مواقع بہت کم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ بیشتر حوصلہ مند اور باصلاحیت افراد پاکستان چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ امریکہ کے سفروں کے دوران میں نے امریکہ میں مقیم بہت سے پاکستانیوں سے پوچھا کہ آپ اپنے ملک کو چھوڑ کر یہاں کیوں آگئے۔ تقریباً سب کا ایک ہی جواب تھاکہ امریکہ میں کام کے مواقع ہیں جب کہ پاکستان میں کام کے مواقع نہیں۔

کشمیر کے بارے میں پاکستان کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی پاکستان کے ترقیاتی سیلاب کے لیے بند دروازہ (trap door) بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان موجودہ زمانہ میں ترقیاتی دوڑ میں پچھڑ گیا ہے۔ پاکستان کو اس پچھڑے پن سے نکالنے کی صرف ایک ہی صورت ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان مسائل سے ٹکرانے کے بجائے مواقع کو استعمال (avail) کرنے کی پالیسی اختیار کرے۔ موجودہ حالات میں اس کی عملی صورت یہ ہے کہ پاکستانی لیڈر کشمیر کے معاملہ میں صورت موجودہ (status quo) کو علیٰ حالہٖ ماننے پر راضی ہوجائیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کشمیر میں قبضہ کی لائن (LoAC) کو کچھ ضروری ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تسلیم شدہ سرحد قرار دے دیا جائے۔ اس معاملہ میں ہندستان اور پاکستان کے درمیان جو جغرافی اور سیاسی اسٹیٹس کو (political status-quo)بن گیاہے اس کو مان کر اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔اپنی اس رائے کو میں 1968 سے برابر پیش کر رہا ہوں۔ مزید یہ کہ اس طرح کا انقلابی فیصلہ صرف ایک غیرجمہوری حکمراں ہی کرسکتا ہے۔ کسی جمہوری حکمراں کے لیے ایسا غیر جذباتی فیصلہ لینا ممکن نہیں۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے لیے یہی تاریخی کام مقدر ہے۔ اس معاملہ میں جو لوگ صدر مشرف کے حق اقتدار پر سوال اٹھارہے ہیں ان کا جواب سابق فوجی صدر محمد ضیاء الحق کی مثال میں موجود ہے۔اس سے پہلے جنرل محمد ضیاء الحق نے یہی کیا تھاکہ پاکستان کے اقتدار پر فوجی قبضہ کیا۔ اور پھر ایک کارروائی کے ذریعہ اپنے صدر مملکت ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت پاکستان کے اسلام پسندوں سے لے کر امریکہ کے محکمہ ٔخارجہ تک ہر ایک نے اس کو قبول کر لیا اور قانون ِضرورت (law of necessity) کے تحت اس کو جائز قرار دیا۔ یہ نظیر کافی ہے کہ صدر پرویز مشرف کو بھی اسی دلیل کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔ یہ ایک دہراکردار ہے کہ جہاں ذاتی انٹرسٹ دکھائی دے وہاں آدمی پریکٹکل بن جائے اور جہاں ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ نہ ہو وہاں وہ آئیڈیلزم کی بات کرنے لگے۔

پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سنبھالنا اورپھر 20 جون 2001 کو ملک کے صدر کی حیثیت سے حلف لینا بظاہر ایک غیر آئینی واقعہ ہے۔ مگر میرے نزدیک وہ ایک بالکل بروقت واقعہ ہے۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان کو جو جرأت مندانہ فیصلہ لینا ہے وہ صدر پرویز مشرف جیسا فوجی حکمراں ہی لے سکتا ہے۔ انتخابات کے ذریعہ بننے والے کسی جمہوری حکمراں کے لیے ایسا غیرجذباتی فیصلہ لینا ممکن نہیں۔

اس مسئلہ کا واحد علاج یہ ہے کہ پاکستان اپنی جذباتی پالیسی کو چھوڑ کر حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرے۔ وہ کشمیر کے سوال پر ہندستان سے سمجھوتہ کرلے تاکہ ملک میں امن کی فضا پیداہو اور ملکی ذرائع کو تعمیری سرگرمیوں کی طرف موڑا جاسکے۔

پچھلے 55 سال سے پاکستان کی سیاست ایک ہی سوال پر مرتکز رہی ہے۔ اور وہ ہے— کشمیر میں قائم شدہ سیاسی حالت  (political status-quo)  کو بدلنا ۔ اب آخری طورپر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ پالیسی ایک تباہ کن پالیسی ہے۔ وہ سرے سے کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی ہی نہیں، نہ ماضی اور حال کے اعتبار سے اور نہ ہی مستقبل کے اعتبار سے۔

مذکورہ قسم کاانقلابی فیصلہ لینا یقینی طورپر ایک مشکل کام ہے۔ لیکن اگر ایک بار ہمت کرکے پاکستان ایسا فیصلہ لے لے تو اس کے معجزاتی نتیجے برآمد ہوں گے۔ انڈیا کے خلاف بلا اعلان جنگ کی حالت ختم ہو کر امن قائم ہوجائے گا۔ پاکستانی قوم کی منفی سوچ مثبت سوچ میں تبدیل ہو جائے گی۔ باہمی تجارت کے دروازے کھل جائیں گے۔ تعلیم اور ثقافت اور سیاحت کے میدان میں دونوں ملکوں کے درمیان لین دین شروع ہو جائے گا۔ لٹریچر کی دو طرفہ آمد و رفت کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں ختم ہوجائیں گی اور برادرانہ ماحول قائم ہوجائے گا۔ انڈیا اور پاکستان کی زبان اور کلچر بڑی حد تک ایک ہے۔ اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے دور کے پڑوسی (distant neighbours)  بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہوگا کہ دونوں قریب کے پڑوسی بن جائیں گے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔

اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی فرد یا قوم کام کرنا چاہے تو اس وقت پیشگی حالات کے نتیجہ میں ایک عملی صورت حال (status quo) موجود رہتی ہے۔ اب سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے موجودصورت حال (status quo) کو بدلا جائے تاکہ عمل کرنے کے راستے پیدا ہوں۔ دوسرے یہ کہ موجود صورت کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے بقیہ ممکن میدانوں میں اپنا عمل جاری کرنا۔

یہ طریقہ جس کو میں مثبت اسٹیٹس کو ازم(positive status-quoism کہتا ہوں، یہی عقل کے مطابق ہے۔ یعنی جب آئیڈیل کا حصول ممکن نہ ہو تو پریکٹکل پر راضی ہوجانا۔ خود اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ حکم دیا گیاہے:الصُّلْحُ خَيْرٌ (4:128)۔ یعنی نزاعی معاملات میں سب سے زیادہ بہتر اور مفید پالیسی سمجھوتہ کی پالیسی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اختلافی مواقع پر ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر مصالحت کا طریقہ اختیار کرنا۔

اسٹیٹس کو (status quo)  کو مانتے ہوئے تعلقات کو مستقل بنیاد پر استوار کرنے کی یہ تجویز کوئی نئی نہیں۔ جواہر لال نہرو کے زمانہ میں دونوں طرف کی حکومتیں مبینہ طورپر اس تجویز پر راضی ہوچکی تھیں۔ حتی کہ شیخ محمد عبد اللہ دونوں کے بیچ میں ایک درمیانی آدمی کے طورپر پاکستان پہنچ چکے تھے۔ مگر نہرو کی اچانک موت سے اس تاریخ ساز منصوبہ پر عمل در آمد نہ ہو سکا:

By 1956, Nehru had publicly offered a settlement of Kashmir with Pakistan over the ceasefire line (now converted into the LoC). On May 23, 1964, Nehru asked Sheikh Abdullah to meet Ayub Khan in Rawalpindi in an effort to resolve the Kashmir imbroglio…the Pakistani leader agreed to a summit with Nehru, to be held in June 1964. This message was urgently telegraphed to Nehru on May 26. But just as Nehru’s consent reached Karachi, the world also learnt that Nehru had died in his sleep. And with that a major opportunity for a peaceful solution over Kashmir was also lost. (The Hindustan Times, June 18, 2001)

پاکستان اگر ایسا کرے کہ کشمیر کے بارے میں صورت موجودہ (status quo) پر رضامند ہوکر اس کو مستقل بندوبست کے طورپر قبول کرلے تو اس میں پاکستان کا یا وسیع تر معنوں میں ملت مسلمہ کا کوئی نقصان نہیں۔ کشمیر کا علاقہ پاکستان سے جدا ہونے کے بعد بھی بدستور ایک مسلم خطہ کے طورپر اپنی جگہ باقی رہے گا۔ پھر اس میں آخر نقصان کی کیا بات۔مزید یہ کہ تجربہ بتاتا ہے کہ بر صغیر ہند کے جو مسلمان انڈیا سے جڑے وہ آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔اس فرق کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ ہندستان کے حکیم عبد الحمید صاحب اور پاکستان کے حکیم محمد سعید صاحب سگے بھائی تھے۔دونوں نے بڑے بڑے کام کیے۔ مگر حکیم محمد سعید صاحب کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ جب کہ حکیم عبد الحمید صاحب امن کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔ یہاںتک کہ دہلی میں ان کی طبعی وفات ہوئی۔

دوسری بات یہ کہ پاکستان کا ہندستان سے مصالحت کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنے طاقتور پڑوسی سے نزاع کو ختم کرنا ہے۔ اور اپنے پڑوسی سے نزاع کو ختم کرنا گویا اپنے اوپر ہر قسم کی ترقی کے دروازے کھولنا ہے۔ اپنے حریف سے نزاع کو ختم کرنا کس طرح ترقی کا زینہ بنتا ہے، اس کی ایک مثال موجودہ جاپان ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپان اور امریکہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ جنگ کے بعد جاپان نے امریکہ سے مکمل مصالحت کرلی۔ اس مصالحت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان عالمی نقشہ میں اقتصادی سُپر پاور بن کر ابھر آیا۔

پاکستان اپنی موجودہ پالیسی سے اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ اپنی موجودہ پالیسی کی بنا پر پاکستان کو یہ کرنا پڑا کہ اس نے انڈیا سے نفرت کو اپنے لیے قومی اتحاد کا ذریعہ بنایا۔ اس غلط پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان (بشمول مشرقی پاکستان) کے لوگ اسلام کے نام پر تو متحد نہ ہوسکے مگر انڈیا سے نفرت کے نام پر وہ مکمل طورپر متحد نظر آتے ہیں۔اس مثال کی بنا پر دنیا کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اسلام کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ مسلمانوں کوباہم متحد کر سکے۔ اسی ذہن کی ترجمانی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (18 جون  2001ء) کے ایک مضمون میں اس طرح کی گئی ہے کہ اسلام پاکستان کو متحد نہ کرسکا، مگر ہندستان دشمنی نے اس کو متحد کردیا:

Islam does not hold Pakistan together anymore, but anti-Indianism does.

پاکستان کی مصالحانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل پاکستان کے اندر نیا مثبت ذہن فروغ پائے گا۔ اس کے بعد اہل پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوجائیں گے جب کہ ان کے قومی اتحاد کی بنیاد اینٹی انڈیا ذہن نہ ہو بلکہ ان کے قومی اتحاد کی بنیاد پرواسلام (pro-Islam) ذہن ہوجائے۔ یہ فائدہ اتنا عظیم ہے کہ عجب نہیں کہ اس کے بعد پاکستان کے اوپر اللہ کی رحمت کے تمام دروازے کھل جائیں اور اس کی رحمت کا کوئی دروازہ  اُس کے اوپر بند نہ رہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom