تشددکا اسلامائزیشن

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پہلے انسان حضرت آدم کے بیٹے قابیل نے ایک ذاتی سبب سے اپنے بھائی ہابیل کو مار ڈالا۔ اس کے بعد قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔ اور ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلے ہوئے احکام لے کر آئے۔ اس کے باوجود ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں کرتے ہیں۔( 5:32)

اس سے معلوم ہوا کہ خدائی شریعت میں انسان کو قتل کرنا ہمیشہ سے ایک بدترین جرم قرار دیا گیا ہے۔ مگر انسان اپنی سرکشی کی بناپر ہر زمانہ میں اس کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ تاہم اس معاملہ میں قدیم وجدید کے درمیان ایک فرق پایا جاتا ہے۔ قدیم انسان یا تو ذاتی مفاد کے لیے کسی کو قتل کرتا تھا یا انتقام کے لیے۔ اس لیے قدیم زمانہ میں قتل کا معاملہ ایک حد کے اندر رہتا تھا۔ وہ لامحدود سفاکی کے درجہ کو نہیں پہنچتا تھا۔

موجودہ زمانہ میں قتل انسان کی ایک نئی صورت ظہور میں آئی ہے۔ اس کو نظریاتی قتل کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک نظریہ بنا کر لوگوں کو قتل کرنا، نظریاتی جواز(ideological justification) کے تحت انسانوں کا خون بہانا۔ مبنی بر نظریہ قتل کے اس تصور نے انسان کے لیے ممکن بنا دیا کہ وہ قصور وار اور بے قصور کے فرق کو ملحوظ رکھے بغیر اندھا دھند لوگوں کو قتل کرے، اس کے باوجود اس کے ضمیر میں کوئی خلش پیدانہ ہو۔ کیوں کہ اپنے مفروضہ عقیدے کے مطابق وہ سمجھتا ہے کہ وہ حق کے لیے لوگوں کا قتل کر رہا ہے۔

نظریاتی قتل کے اس طریقہ کو بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونسٹوں نے ایجاد کیا۔ یہ لوگ کمیونزم کے فلسفہ جدلیاتی مادیت (dialectical materialism) میں عقیدہ رکھتے تھے۔ اس عقیدہ کے مطابق، انقلاب صرف اس طرح آسکتا تھا کہ ایک طبقہ دوسرے طبقہ کو متشددانہ طورپر مٹا دے۔ اس عقیدے کے تحت ان لوگوں نے مختلف ملکوں میں پچاس ملین سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

نظریاتی قتل کی دوسری زیادہ بھیانک مثال وہ ہے جو مسلم دنیا میں ظہور میں آئی۔بیسویں صدی کے نصف اول میں اس انتہا پسندانہ نظریہ کو فروغ حاصل ہوا۔ اس نظریہ کو وضع کرنے اور پھیلانے میں موجودہ زمانہ کی دو مسلم جماعتیں خاص طورپر ذمہ دار ہیں—عرب دنیا میں الاخوان المسلمون، اور غیرعرب دنیا میں جماعت اسلامی۔

الاخوان المسلمون نے اپنے مخصوص نظریہ کے تحت یہ نعرہ اختیار کیا: القرآن دستورنا والجہاد منھجنا۔ یعنی قرآن ہمارا آئین ہے اور جہاد (متشددانہ طریقِ کار) کے ذریعہ ہمیں اس کو ساری دنیا میں نافذ کرنا ہے۔ عرب دنیا میں یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ سڑکوں پر یہ نغمہ سنائی دینے لگا:

ھلم نقاتل ھلم نقاتل              فإن القتال سبیل الرشاد

فلسطین سے لے کر افغانستان تک اور چیچنیا اور بوسنیا تک جہاںجہاں اسلامی جہاد کے نام پر تشدد کیا گیا وہ سب اسی نظریہ کا نتیجہ تھا۔

اسی طرح جماعت اسلامی نے یہ نظریہ بنایا کہ موجودہ زمانہ میں ساری دنیا میں جو نظام رائج ہے وہ طاغوتی نظام ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس طاغوتی نظام کو مٹائے اور اس کی جگہ اسلامی نظام کو نافذ کرے۔ یہ کام اتنا ضروری ہے کہ اگر وہ فہمائش کے ذریعہ پورا نہ ہو تو اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ تشدد کی طاقت کو استعمال کرکے اہل طاغوت سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیںاور اسلامی قانون کی حکومت ساری دنیا میں نافذ کردیں۔ پاکستان اور کشمیر جیسے مقامات پر اسلام کے نام سے جو تشدد ہورہا ہے وہ مکمل طورپر اسی خود ساختہ نظریہ کا نتیجہ ہے۔

11 ستمبر 2001ء سے پہلے اور 11 ستمبر 2001ء کے بعد دنیا کے مختلف مقامات پر اسلام کے نام سے جو بھیانک تشدد ہوا یا ہو رہا ہے، وہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر انہی دونوں نام نہاد انقلابی تحریکوں کا نتیجہ ہے۔

ان دونوں جماعتوں کے بانیوں کی غلط فکری کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ انہوں نے جماعت اور اسٹیٹ کے فرق کو نہیں سمجھا۔ جو کام صرف ایک منظم اسٹیٹ کی ذمہ داری تھی اس کو انہوں نے اپنی بنائی ہوئی جماعت کی ذمہ داری سمجھ لیا۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، جہاد بمعنیٰ قتال اوراجتماعی شریعت کا نفاذجیسا کام مکمل طورپر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان مقاصد کے لیے جماعت بنا کر ہنگامہ آرائی کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔

اسلام میں جماعت کے جو حدود کار ہیں وہ قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے: اور چاہیے کہ تم میں ایک جماعت ہو جو خیر کی طرف بلائے اور معروف کا حکم کرے اور منکر سے منع کرے، یہی لوگ فلاح کو پہنچنے والے ہیں(آل عمران، 3:104)۔ اس قرآنی ارشاد کے مطابق، غیر اہل حکومت کے لیے جماعت بنانا صرف دو مقصد کے لیے جائز ہے۔ ایک، پُرامن دعوت خیر، اور دوسرے، پُر امن نصیحت اور تلقین۔دعوت خیر سے مراد غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانا ہے اور امر بالمعروف، نھی عن المنکر سے مراد مسلمانوں کے اندر نا صحانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی ہنگامہ آرائی کے لیے جماعت بنانا سراسر بدعت اور ضلالت ہے جس کا کوئی جواز اسلام میں نہیں۔ نیز واضح ہو کہ قرآن میں جماعت سے مراد گروہ ہے ،نہ کہ پارٹی۔

اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے بانیوں نے جو خود ساختہ نظریہ سازی کی وہ شریعت کے بھی خلاف تھی اور فطرت کے بھی خلاف۔ اس قسم کی غیر فطری نظریہ سازی ہمیشہ تشدد سے شروع ہوتی ہے اور منافقت پر ختم ہوتی ہے۔لوگوں کے ذہن میں جب تک اپنے رومانی تصورات کا جنون ہوتا ہے وہ اپنے مفروضہ انقلاب کے لیے اتنے دیوانے ہوجاتے ہیں کہ استشہاد کے نام پر خود کش بمباری کو بھی جائز قرار دے لیتے ہیں۔ مگر جب حقائق کی چٹان  ان کے جنون کو ٹھنڈا کر دیتی ہے تو اس کے بعد وہ منافقانہ روش اختیار کر لیتے ہیں۔ یعنی فکر ی اور اعتقادی اعتبارسے بدستور اپنے سابق نظریہ کو ماننا، مگر عملی اعتبار سے مکمل ہم آہنگی کا طریقہ اختیارکرکے اپنے دنیوی مفادات کو محفوظ کر لینا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom