کلچر کا اختلاف
اس سلسلہ میں دوسرا مسئلہ کلچر کا اختلاف ہے۔ مختلف گروہوں کے درمیان کلچر کا اختلاف ایک حقیقت ہے۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ یہی اختلاف تمام نزاعات کی جڑ ہیں۔ اُن کے نزدیک اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کلچر کے نام پر جو اختلافات سماج میں پائے جاتے ہیں اُن کو یکسر مٹادیا جائے اور ایسا سماج قائم کیا جائے جس کے اندر کلچرل یونٹی ہو۔
یہ تجویز بھی سراسر غیر عملی ہے۔ کلچر نہ کسی کے بنانے سے بنتا اورنہ کسی کے مٹانے سے مٹ جاتا۔ کلچر ہمیشہ تاریخی عوامل کے تحت لمبی مدت کے درمیان بنتا ہے۔ کسی دفتر میں بیٹھ کر کلچر کا نقشہ نہیں بنایا جاسکتا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی ملکوں میں ایسے نظریہ ساز (idealogue) پیدا ہوئے جنہوں نے قومی اتحاد کے لیے ایک کلچر کا سماج بنانے پر زور دیا۔ مثلاً کناڈا میں اسی نظریہ کے تحت یونی کلچرل ازم کی تحریک چلائی گئی۔ مگر تجربہ نے بتایا کہ یہ قابلِ عمل نہیں۔چنانچہ بیس سال کے اندر ہی اندر اس نظریہ کو ترک کر دیا گیا۔اب کناڈا میں سرکاری طورپر ملٹی کلچرلزم کے اصول کواختیار کر لیا گیا ہے اور یونی کلچرلزم کے نظریہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا گیاہے۔
یہی معاملہ امریکا کا ہے۔ امریکا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکنائزیشن کی تحریک چلائی گئی۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا۔ مگر لمبی جدوجہد کے بعد معلوم ہوا کہ وحدت کلچر کایہ نظریہ قابلِ عمل نہیں۔ چنانچہ اس نظریہ کو ترک کر دیا گیا اور امریکا میں بھی ملٹی کلچرلزم کے اصول کو اختیار کرلیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کلچر کا اختلاف دوگروہوں کے درمیان اختلاف کا معاملہ نہیں ہے۔ خودایک گروہ کے درمیان بھی یہ اختلاف پایا جاسکتاہے۔ اس داخلی اختلاف کی مثالیں ہر گروہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس لیے مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی لانے کے لیے مذہبی تعلیمات میں تبدیلی ضروری نہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اہل مذاہب کے اندر وہ سوچ پیدا کی جائے جس کو جیو اور جینے دو (live and let live) کہا جاتاہے۔
کچھ لوگ اس ناکام تجربہ کو اب بھی دوہرانا چاہتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے سوشل ری انجینئرنگ رکھ دیا ہے:
Social re-engineering of Indian Society
اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کے مختلف گروہوں میں کلچر کے اعتبار سے جو فرق پایا جاتا ہے اس کی دوبارہ تشکیل دی جائے اور ایسا سماج بنایا جائے جس میں کلچر کا فرق ختم کردیا گیا ہو اور ملک کے تمام لوگ ایک ہی مشترک کلچر کے مطابق زندگی گزاریں۔
یکساں کلچر بنانے کے کام کو جوبھی نام دیا جائے، نتیجہ بہر حال سب کا ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اس قسم کا نظریہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل بلڈوزنگ ہے۔ اس کو خواہ سوشل ری انجینئرنگ کہا جائے یا کلچرل نیشنلزم، وہ بہر حال ناقابلِ عمل ہے۔ اور جو چیز فطری قوانین کے مطابق، سرے سے قابلِ عمل ہی نہ ہو اس کو اپنے عمل کا نشانہ بنانا صرف اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔
اس معاملہ میں میرا اختلاف نظریاتی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ عملی بنیاد پر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ یہ ناقابلِ عمل ہے۔ اگر بالفرض ایسا ممکن ہوتا کہ پورے ملک کی ایک زبان ایک کلچر ، رہن سہن کا ایک طریقہ بن جائے تو میں کہتا کہ ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ مگر فطرت اور تاریخ کے قوانین کے اعتبار سے ایسی یکسانیت ممکن ہی نہیں۔ نہ کبھی وہ ماضی میں ممکن ہوئی ہے اور نہ وہ مستقبل میں ممکن ہو سکتی ہے۔ کلچر ہمیشہ خود اپنے قوانین کے تحت بنتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی دفتر میں کلچر کا ایک خود پسند نقشہ بنایا جائے اور اس کو ملک کے تمام گروہوں میں رائج کردیا جائے۔
ایسی حالت میں ہم کو وہی کرنا چاہیے جو ہم دوسرے اختلافی معاملات میں کرتے ہیں، یعنی رواداری (tolerance) کے اصول پر اپنے مسئلہ کو حل کرنا۔ حقیقتِ واقعہ سے ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کرکے اس سے نپٹنا، نہ کہ اس سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنا۔اس معاملہ میں ٹکراؤ کا طریقہ صرف مسئلہ کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ اس کو حل کرنے والا۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندو تو انڈیا میں پیدا ہوئے ۔ ان کی وفاداری کے مراکز اسی ملک میں ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کے اعتقادی مراکز (مثلاً مکہ اور مدینہ) انڈیا سے باہر ہیں۔ اس لیے مسلمان کبھی اس ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے۔
میں کہوں گا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔ مثلاً ایک ہندو اگر سومناتھ کے مندر سے عقیدت رکھتا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اجودھیا کے مندر کا عقیدت مند نہیں ہو سکتا۔ ایک ہندو کے دل میں اگر اپنی ماں کی محبت ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا دل باپ کی محبت سے خالی ہوگا۔
یہی معاملہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ مسلمان اگر مکہ اور مدینہ سے قلبی لگاؤ رکھتاہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو انڈیا سے قلبی لگاؤ نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی سوچ انسان کی تصغیر (underestmation) ہے۔ کوئی شخص ہندو ہو یا مسلمان دونوں حالتوں میں وہ فطرت کا ایک مظہر ہے اور فطرت نے جو انسان پیدا کیا ہے اُس کے اندر اتنی وسعت موجود ہے کہ وہ بیک وقت کئی محبتوں اور وفاداریوں کو یکساں طورپر اپنے دل میں جگہ دے سکے۔
یہ ایک ایسی فطری حقیقت ہے جس کا تجربہ ہر انسان کررہا ہے۔ ہر مرد اور عورت خود اپنے ذاتی تجربہ کے تحت اس کو جانتے ہیں۔ اس فطری حقیقت کو ایک مغربی مفکر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— میرے اندر اتنی زیادہ وسعت ہے کہ میں مختلف تضادات کو بیک وقت اپنے اندر جگہ دے سکوں:
I am large enough to contain all these contradictions.