فتح بھی شکست ہے
شاہ پائرس (King Pyrrhus) تیسری صدی قبل مسیح کا ایک یونانی بادشاہ تھا۔ اُس کی لڑائی رومیوں سے ہوئی۔ اس جنگ میں آخر کار شاہ پائرس کو رومیوں کے اوپر فتح حاصل ہوئی۔ مگر لڑائی کے دوران شاہ پائرس کی فوج اور اُس کے ملک کی اقتصادیات بالکل تباہ ہوچکی تھی۔ شاہ پائرس کے لیے یہ بظاہر فتح تھی مگر وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے شکست کے ہم معنیٰ تھی۔ اس تاریخی واقعہ کی بنا پر ایک اصطلاح مشہور ہوئی ہے جس کو پرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کہا جاتا ہے، یعنی بظاہر فتح مگر اپنی حقیقت کے اعتبا رسے مکمل شکست۔
جنگوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اکثر فتح پِرک فتح ہی ہوتی ہے۔ ہر فاتح کے حصہ میں دو نقصان کا پیش آنا لازمی ہے۔ ایک، جان اور مال کی تباہی۔دوسرے ،مفتوح کے دل میں فاتح کے خلاف نفرت۔ کوئی بھی فاتح ان نقصانات سے بچ نہیں سکتا۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ کوئی فاتح اس نقصان کو فوراً بھگتتا ہے ، اور کسی فاتح کے حصہ میں یہ نقصان کسی قدر دیر کے بعد آتا ہے۔
نقصان کا یہ معاملہ صرف پُرتشدد طریقِ کار کے ساتھ وابستہ ہے۔ پُر امن طریقِ کار کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ پُر امن طریقِ کار میں صرف فتح ہے، پُر امن طریقِ کار میں شکست کا کوئی سوال نہیں۔ حتیٰ کہ اگر پُر امن طریقِ کار کا نتیجہ بظاہر شکست کی صورت میں نکلے تب بھی وہ فتح ہے۔ اس لیے کہ پُر امن طریقِ کار کی صورت میں آدمی جنگ کو کھوتا ہے مگر وہ مواقع کو نہیں کھوتا۔ مواقع اور امکانات اب بھی اُس کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ وہ ان مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ ایک نئی جدوجہد شروع کرسکتا ہے اور از سرِ نو اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔