امن اور تشدد کا فرق

امن ایک منصوبہ بند عمل ہے، اور تشدد صرف بھڑک کر جارحانہ کارروائی کرنے کا نام ہے۔ امن پسند آدمی پہلے سوچتا ہے اوراس کے بعد وہ عمل کرتا ہے۔ تشدد پسند آدمی پہلے کر ڈالتاہے، اس کے بعد وہ سوچتا ہے۔ پُرامن عمل میں پہلے بھی اُمید ہے اور آخر میں بھی اُمید۔ اور پُر تشدد عمل میں پہلے فرضی اُمید ہے اور آخر میں صرف مایوسی۔

امن پسند آدمی سچائی پر کھڑا ہوتا ہے اور پُر تشدد آدمی جھوٹ پر۔ امن کا راستہ شروع سے آخر تک ایک کھُلا ہوا راستہ ہے، اور تشدد کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا راستہ۔ امن میں تعمیر ہی تعمیر ہے اور تشدد میں تخریب ہی تخریب۔ امن پسند انسان دوسروں کی محبت میں جیتا ہے اورتشدد پسند انسان دوسروں کی نفرت میں ۔ امن پسندی کا خاتمہ کامیابی پر ہوتا ہے اور تشدد پسندی کا خاتمہ شرمندگی پر۔

امن پسندی میں کوئی کام بگڑتا نہیں اور ہر کام بن جاتا ہے۔ تشدد پسندی میں کوئی کام بنتا نہیں اورہر کام بگڑ جاتا ہے۔ امن کا طریقہ انسانیت کاطریقہ ہے اور تشدد کا طریقہ حیوانیت کاطریقہ۔ امن کا عمل قانون کے دائرہ میں ہوتا ہے اور تشدد کاعمل لاقانونیت کے دائرہ میں ۔

امن پسند آدمی مسائل کو نظر اندازکرکے مواقع کو استعمال کرتا ہے اور تشدد پسند آدمی مواقع کو غیراستعمال شدہ حالت میں چھوڑ کر مسائل کے خلاف بے فائدہ لڑائی لڑتا رہتا ہے۔ امن کا عمل پیارو محبت کا باغ اُگاتا ہے اور تشدد کا عمل نفرت اور دشمنی کا جنگل اُگاتا ہے۔ امن کلچر فرشتوں کا کلچر ہے اور تشدد کلچر شیطانوںکا کلچر۔

امن میں خدا کے حقوق بھی ادا ہوتے ہیں اورانسان کے حقوق بھی۔ اورتشددمیں انسان کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے اور خدا کے حقوق کی بھی خلاف ورزی۔ امن اگر جنت ہے تو تشدد اُس کے مقابلہ میں دوزخ۔

امن اور جنگ دونوں یکساں نہیں۔ امن کسی انسان کے لیے ایک سچا انتخاب (choice) ہے۔ اور جنگ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی سچے انتخاب کو نہ پاسکا، وہ انتخاب کے ٹیسٹ میں ناکام ہوگیا۔

دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اگر چہ عملاً موجود ہیں مگر وہ امتحان کے لیے ہیں، وہ مطلوب چیز کے طورپر نہیں۔مثلاً شراب دنیا میں موجود ہے۔ مگر شراب اس لیے نہیں ہے کہ کوئی آدمی اُس کو استعمال کرے۔ بلکہ شراب اس لیے ہے کہ آدمی اُس سے بچ کر یہ ثابت کرے کہ وہ اچھے اور بُرے کی تمیز رکھتا تھا، وہ ایک محتاط انسان تھا۔ یہی معاملہ جنگ کا بھی ہے۔ جنگ کا طریقہ اگر چہ بظاہر قابل استعمال ہے مگر کسی انسان کے لیے اعلیٰ روش یہی ہے کہ وہ جنگ کے طریقہ کو استعمال نہ کرے۔

قدیم زمانہ میں جوحالات تھے اُن میں دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی گئی تھی۔ مگر یہ اجازت قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت تھی ۔ اب نئے حالات میں یہ ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے اب جنگ کی بھی ضرورت نہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom