خوش گوار آغاز، ناخوش گوار انجام

پاکستان کا اسلامک گروپ اور انڈیا کا فنڈمنٹلسٹ گروپ دونوں کے عقیدے بظاہر ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ مگر عملی طورپر دونوں کا کیس تقریباً یکساں ہے۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے واحد نجات دہندہ ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں گروہوں نے اپنے اپنے ملکوں کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان شاید کسی اور گروہ نے نہیں پہنچایا۔

اس صورت حال کا مشترک سبب یہ ہے کہ دونوں اگر چہ اپنے اپنے اعتبا ر سے وطن کے خیر خواہ ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ دونوں ہی یکساں طورپر انتہا پسند(extremists) ہیں۔اور انتہاپسندی کے ساتھ ایک گھرکو بھی کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔ پھر پورے ملک کو کس طرح انتہا پسندی کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ چلایا جاسکتا ہے۔

اب پاکستان کے اسلامسٹ گروپ کو لیجیے۔ یہ لوگ پچھلے تقریباً 55 سال سے پاکستان میں سرگرم ہیں۔ اپنے کئی مطالبات کو منوانے میں بھی بظاہر وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ مگر ان کی یہ کامیابی وسیع تر معنوں میں ان کے ملک کے لیے مثبت نتیجہ کا سبب نہ بن سکی۔

پاکستان کی سیاست سے اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ یہاں ہم صرف کشمیر کے مسئلہ کو لیں گے۔ اس معاملہ میں پاکستان کے اسلامسٹ گروپ نے اپنے مخصوص مزاج کے تحت یہ کیا کہ انہوں نے اپنی کشمیری تحریک کو قومی تحریک نہ بتاتے ہوئے اس کو جہاد کا عنوان دے دیا۔

قومی تحریک میں ہمیشہ فیصلہ کن چیز عملی حقائق ہوتے ہیں۔ اس بنا پر قومی تحریک میں ہمیشہ لچک اور ایڈ جسٹ منٹ کی گنجائش رہتی ہـے۔ مگر جہاد ایک مذہبی عقیدہ کی بات ہے۔ جب کسی معاملہ کو جہاد کا معاملہ قرار دے دیا جائے تو اس سے وابستہ لوگوں میں لچک اورایڈجسٹمنٹ کا مزاج ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جہاد کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ بتاتا ہے کہ اگر تم اس راہ میں کچھ حاصل نہ کر سکو تب بھی اس میں جان دینا ہی تمہاری کامیابی ہے۔کیونکہ جہاد کے راستہ میں مرکر تم سیدھے جنت میں پہنچ جاؤگے۔

واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستان کا سیکولر طبقہ کشمیر کے معاملہ میں انڈیا کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اختیار کرنے پر ذہنی طورپر راضی ہے۔ مگر وہاں کا اسلامسٹ گروپ اس معاملہ میں ان کے خلاف عقب لشکر (rearguard) کا کردار ادا کررہا ہے۔ اس نے پرجوش تقریریں کر کے اس معاملہ کو اتنا زیادہ جذباتی بنا دیا ہے کہ اب پاکستان کے بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم سرینگر تک پہنچیں یا نہ پہنچیں مگر اس راہ میں لڑ کر ہم جنت تک ضرور پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کا اسلامسٹ گروپ ایڈجسٹمنٹadjustment)) کی پالیسی اختیار کرنے میں ایک مستقل رکاوٹ بن گیا ہے، جب کہ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی ہی کسی قوم کے لیے کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔

اب انڈیا کو لیجیے ۔ انڈیا کا فنڈمنٹلسٹ طبقہ بھی اپنے حالات کے اعتبارسے وہی منفی کردار ادا کر رہا ہے جو پاکستان کا اسلامسٹ طبقہ اپنے حالات کے لحاظ سے ادا کررہا ہے۔ مذہبی فنڈمنٹلزم عین اپنی فطرت کی بنا پر اپنے آپ کو برحق سمجھنے (self righteousness)  کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ اس مزاج کا مزید نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر انتہا پسندی اور کٹر پن کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کاحال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جانتے ہیں مگر وہ دوسروں کو نہیں جانتے۔ وہ اپنے آپ کو ہر حال میں درست اور دوسروں کو ہر حال میں نادرست سمجھتے ہیں۔ وہ صرف اپنے آپ کو رعایت کا مستحق سمجھتے ہیں، دوسروں کی رعایت کرنا ان کی فہرست اخلاق میں شامل نہیں ہوتا۔

آزادی کے بعد ہندستان کی تاریخ میں اس فنڈمنٹلسٹ کردار کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہاں ہم کشمیر کے تعلق سے اس معاملہ کی ایک تازہ مثال نقل کریں گے۔

حکومت ہند کی دعوت پر پاکستان کے صدر جنرل پرو یز مشرف نے انڈیا کا دورہ کیا۔ وہ 14جولائی 2001 کی صبح کو یہاں آئے اور 16 جولائی 2001 کی رات کو واپس گئے۔ اس دوران دہلی اور آگرہ میں ان کی ملاقاتیں انڈیا کے لیڈروں سے ہوئیں۔ ابتداء میں بظاہر ملاقات کا یہ پروگرام بہت امید افزا تھا۔ مگر بعد کوایسی تلخی پیدا ہوئی کہ کوئی مشترک اعلان جاری کیے بغیر یہ چوٹی کانفرنس ختم ہوگئی۔ دورہ ناکام ہوکر رہ گیا۔

اس ناکامی کا سبب کیا تھا۔ میرے نزدیک اس کا سبب ہمارے یہاں کے کچھ فنڈمنٹلسٹ لیڈروں کا بے لچک رویہ ہے۔ وہ اپنے مذکورہ ذہن کی بنا پرمعتدل انداز میں پاکستانی صدر سے معاملہ نہ کرسکے اور چوٹی کانفرنس ناکام ہوکر رہ گئی۔

میں ذاتی طورپر پچھلے تقریباً چالیس سال سے یہ رائے رکھتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلہ کا واحد ممکن حل یہ ہے کہ موجودہ جنگ بندی لائن یا لائن آف ایکچول کنٹرول کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان مستقل سرحد کے طورپر مان لیاجائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ پاکستان کے لیے یہ ایک نہایت کڑوا گھونٹ ہے۔ اس لیے اس تجویز کو واقعہ بنانے کے لیے ہمیں حد درجہ حکمت اور دانش مندی سے کام لینا ہوگا۔اس کے بغیر اس معاملہ میں کامیابی ممکن نہیں۔ اپنے حریف کو بے عزت کرکے آپ اسے جیت نہیں سکتے، البتہ رعایت اور محبت کا معاملہ کرکے یقینی طورپر آپ اس کو جیت سکتے ہیں۔

میں نے صدر پرویز مشرف کے سفر سے پہلے انہیں ایک خط (9جولائی 2001)بھیجا تھا۔ یہ خط زیر نظر مجموعہ میں شامل ہے۔ صدر پرویز مشرف جب ہندستان آئے تو انہوں نے کئی ایسے اشارے دئے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ مفاہمت اور مصالحت پر تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کھلے ذہن (open mind) کے ساتھ یہاں آیا ہوں۔ دہلی میں اپنے آبائی مکان کی خصوصی زیارت کرکے انہوں نے یہ تاثر دیا کہ میں اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک ہندستانی ہوں، اس لیے فطری طورپر میرے دل میں ہندستان کے لیے ایک نرم گوشہ (soft corner) موجودہے۔ راشٹرپتی بھون نئی دہلی کی پارٹی میں انہوںنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی نزاع کا کوئی فوجی حل موجود نہیں:

There is no military solution to the Kashmir dispute.

انہوں نے آگرہ کی پریس کانفرنس میں اعتراف حقیقت (acceptance of reality) کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں زینہ بہ زینہ (step by step)آگے بڑھنا ہوگا، وغیرہ۔

پاکستانی صدر کے اس قسم کے اشارے واضح طورپر یہ بتار ہے تھے کہ وہ مصالحانہ انداز اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ کشمیر کے نزاعی مسئلہ کو ختم کرنے کا ارادہ لے کر آئے ہیں۔ مگر ہماری لیڈر شپ اپنے مذکورہ فنڈمنٹلسٹ مزاج کی بنا پر پاکستانی صدر کے ان اشاروں (gestures) کو کیش (cash) نہ کر سکی۔ ایک تاریخ بنتے بنتے رہ گئی۔

مثال کے طورپر ہمارے فنڈمنٹلسٹ لیڈروں کو جاننا چاہیے تھا کہ جنرل پرویز مشرف جو بھی معاہدہ کریں، اس کے بعد انہیں اپنے ملک پاکستان واپس جانا ہے۔ اس لیے ہر بات ایسے حکیمانہ انداز سے کہی جائے کہ پرویز مشرف جب واپس ہو کر اسلام آباد پہنچیں تو وہاں ان کا استقبال کالے جھنڈوں سے نہ کیا جائے۔ مگر ہمارے لیڈروں کے بے لچک رویہ اور غیر دانش مندانہ کلام کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصالحت کی گفتگو راہ پر آنے کے بعد اچانک اس انجام سے دوچار ہوئی جس کو ایک ہندستانی صحافی نے ڈرامائی موڑ(dramatic turn) کے لفظ سے تعبیر کیا تھا۔ خوش گوار آغاز کا یہ ناخوش گوار انجام کیوںہوا، اس کی کافی تفصیل میڈیا میں آچکی ہے۔ یہاں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔

نزاعی امور کا تصفیہ گہری دانش مندی کے ساتھ فریق ثانی کی مکمل رعایت کا طالب ہوتا ہے۔ ذاتی انٹرسٹ کے معاملہ میں ہر آدمی کو معلوم ہے کہ مسئلہ کے حل کے لیے ان دونوں پہلوؤں کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔ مگر جب معاملہ قومی انٹرسٹ کا ہو تو لوگ اس حقیقت کو اس طرح بھول جاتے ہیں جیسے کہ وہ اس کو جانتے ہی نہ ہوں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom