دشمن کو دوست بنانا
قرآن کی سورہ فصلت میں ارشاد ہوا ہے: بھلائی اور بُرائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (41:34)۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک راز بتایا گیا ہے— وہ راز یہ ہے کہ ہر دشمن انسان کے اندر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس دوست انسان کو دریافت کرو۔ اور پھر یہ معجزاتی واقعہ پیش آئے گا کہ جو آدمی بظاہر تمہارا دشمن دکھائی دیتا تھا وہ تمہارا قریبی دوست بن جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دشمنی کوئی فطری چیز نہیں، وہ ایک مصنوعی رد عمل ہے۔ جب بھی کسی وجہ سے کوئی شخص بظاہر تمہارا دشمن بن جائے تو تم اُس کے ساتھ رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرتے ہوئے اُس کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی کوشش کرو، خواہ یہ بہتر سلوک تم کو مفروضہ دشمن کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود یک طرفہ بنیاد پر کرنا پڑے۔
تمہارا یک طرفہ سلوک یہ کرے گا کہ وہ دشمن کے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات کو دبا دے گا۔ تمہارا یک طرفہ سلوک دشمن کی سوئی ہوئی انسانیت کو جگا کر اُس کو ایک نیا انسان بنادے گا۔ اور یہ نیا انسان وہی ہوگا جس کو قرآن میں قریبی دوست کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا آدمی ایک ہی مشترک فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی پہلے مسٹر نیچر ہے، اُس کے بعد وہ مسٹر دشمن یا مسٹر دوست بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ ہیں وہی آپ کا مفروضہ دشمن بھی ہے۔ اور جو آپ کا مفروضہ دشمن ہے وہی خود آپ بھی ہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ بظاہر دشمنی کے باوجود وہ فریقِ ثانی کے اندر اپنے مشترک انسان کو تلاش کرے۔ وہ دوسروں سے بھی وہی اُمید رکھے جو امید وہ اپنے آپ سے کیے ہوئے ہے۔