اعراض، نہ کہ ٹکراؤ
قرآن کی سورہ الاعراف میں حکم دیا گیا ہے کہ: وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ(7:199) ۔ یعنی تم نادان لوگوں سے اعراض کرو۔
اعراض کامطلب احتراز (avoidance) ہے، اعراض کااُلٹا ٹکراؤ (confrontation) ہے۔ اعراض کا طریقہ آدمی کو پُرامن دائرہ میں محدود رکھتا ہے اور ٹکراؤ کاطریقہ اُس کو فریق ثانی کے مقابلہ میں متشددانہ کارروائی کی طرف لے جاتا ہے۔
موجودہ دنیا میں کوئی انسان یا گروہ اکیلا نہیں ہے۔ اُس کے سوا دوسرے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اپنے مقاصد رکھتے ہیں۔ ہر ایک کااپنا الگ ایجنڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں بار بار ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ بار بار ایک فرد اور گروہ اوردوسرے فرد اور گروہ کے درمیان کشمکش کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
ایسی حالت میں آدمی کے لیے دو راستے ہیں—اعراض یا ٹکراؤ، ان دو کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں۔ اب آدمی اگر ٹکراؤ کاراستہ اختیارکرے تو دونوں فریقوں کے درمیان لڑائی ہوگی۔ ساری تاریخ کا تجربہ ہے کہ لڑائی سے صرف دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔ حقیقی معنوں میں اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ ٹکراؤ سے ہٹ جائے اوراعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اعراض کا طریقہ نہ صرف مزید نقصان سے بچاتا ہے بلکہ وہ آدمی کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ اپنے ترقی کے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھ سکے۔ اعراض کا عمل بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلہ میں ہوتاہے مگر اعراض کا مقصد خود اپنے آپ کو بے فائدہ ٹکراؤ سے بچانا ہے۔ اعراض کا مقصد یہ ہے کہ اپنے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھا جائے۔