امن کی قیمت
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کوئی چیز آدمی کو اُسی وقت ملتی ہے جب کہ وہ اُس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔ ضروری قیمت ادا کیے بغیر اس دنیا میں کسی کو اپنی مطلوب چیز نہیں ملتی۔ یہی معاملہ امن کا بھی ہے۔ امن کی بھی ایک قیمت ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اُسی وقت امن کو حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ اس کی مطلوب قیمت ادا کرے۔ امن کی یہ قیمت نقصان کو برداشت کرنا ہے۔
یہ حقیقت قرآن کی سورہالبقرہ میں اس طرح بیان کی گئی ہے: ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ( 2:155-56)۔
قرآن کی اس آیت میں زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا کانظام جس قانون کے تحت بنا ہے، اُس کے مطابق، ایسا ہونا ضروری ہے کہ لوگوں کو مختلف قسم کا نقصان اٹھانا پڑے۔ کبھی انہیں دوسروں کی طرف سے چیلنج پیش آئے، کبھی انہیں اقتصادی تنگی کا شکار ہونا پڑے، کبھی اُنہیں ملک ومال میں کمی کا تجربہ ہو، کبھی وہ کسی حادثہ کا شکار ہوجائیں، کبھی وہ کسی ایسے فائدے سے محروم ہوجائیں جس کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے، وغیرہ۔
اس قسم کے ناخوش گوار تجربات عین فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں ہر ایک کو کبھی نہ کبھی پیش آئیں گے۔ ایسی حالت میں لوگ اگر نقصان کو برداشت نہ کریں تو اسی کے نتیجہ کا نام تشدد ہے۔ اوراگر وہ اس کو برداشت کرلیں تو اسی کے نتیجہ کا نام امن ہے۔
نقصان پیش آنے پر صبر اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا کوئی پسپائی کی بات نہیں۔ یہ ہمت و حوصلہ کی بات ہے۔ یہ حقیقتِ واقعہ کو اختیارانہ طورپر تسلیم کرنا ہے۔ اس کا مطلب، ایک چیز کھونے کے بعد یہ یقین رکھنا ہے کہ بہت سی دوسری چیزیں اب بھی اُس کے پاس موجود ہیں جن کے سہارے وہ ازسرِ نو اپنی زندگی کی تعمیر کرسکتا ہے۔
صبر و برداشت کا فائدہ یہ ہے کہ چیز کو کھونے کے باوجود آدمی اپنے اعتدال کو نہیں کھوتا۔ وہ وقتی ناکامی کے باوجود اپنی اس صلاحیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ صورت حال پر معتدل انداز میں غور کرے۔ وہ معاملہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ازسرِ نو اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ وہ کھوئے ہوئے کو بھلا کر باقی رہنے والی چیزوں کی بنیاد پر دوبارہ اپنے کام کو منظّم کرے۔ وہ مایوسی کے بجائے تدبیر سے کام لے کر پھر سے زندگی کا سفر شروع کردے۔
موجودہ دنیا کی ایک صفت یہ ہے کہ یہاں ہر شام کے بعد دوبارہ صبح طلوع ہوتی ہے۔ دنیا امکانات ومواقع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاںایک موقع کھونے کے بعد آدمی کو دوسرا موقع مل جاتا ہے۔ ایک زینہ سے محرومی کے بعد اُس کے لیے دوسرے زینہ کے دروازے کھُل جاتے ہیں۔ اس طرح اس دنیا میں بار بار یہ امکان موجود رہتا ہے کہ ایک نقشہ ٹوٹنے کے بعدآدمی دوسرے نقشہ کو استعمال کرکے اپنی زندگی کی نئی تعمیر کرلے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر بُری خبر کے ساتھ ایک اچھی خبر شامل رہتی ہے۔ ہر حادثہ آدمی کوخاموش زبان میں یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تم مایوس اور بد دل نہ ہو۔ بلکہ ہمت سے کام لے کر نئے مواقع کی تلاش کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو فطرت کا نظام پیشگی طورپر تم کو یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تمہاری محرومی مستقل محرومی نہیںبنے گی۔ جلد ہی تم اپنے لیے ایک نئی اور زیادہ بہتر دنیا کی تعمیر کرلوگے۔ جلد ہی تمہاری شکست ایک نئی قسم کا رہنما ثابت ہوگی۔
جو لوگ نقصان کو برداشت نہ کریں، وہ منفی سوچ کا شکار ہوکر اپنی زندگی کوایک بوجھ بنالیتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ صبراور ہمت سے کام لیں وہ ماضی کے کھنڈر پر اپنے لیے ایک نیا محل تعمیر کرلیتے ہیں۔ وہ ایک شام کے بعد دوبارہ اپنے لیے ایک نئی صبح تلاش کرلیتے ہیں جس کی روشنی میں وہ اپنا سفر رُکے بغیر جاری رکھ سکیں۔