دورۂ ہند سے قبل بھیجا ہوا خط
برادر محترم پریذیڈنٹ پرویز مشرف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
انڈیا کے لیے آپ کا دورہ (15۔16 جولائی) ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اقدام کو مکمل کامیابی عطا فرمائے۔
12 اکتوبر 1999 کو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امکانی ہوائی حادثہ سے بچایا اور پاکستان کے سیاسی اقتدار پر سرفراز کیا تو مجھے رابرٹ کلایو کا واقعہ یاد آیا۔ ایک امکانی حادثہ سے بچنے کے بعد کلایو کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے: خدانے تم کو کسی بڑے کام کے لیے بچایا ہے۔ اور اس کے بعداس نے واقعۃً برطانی تاریخ میں ایک بڑا کام انجام دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی تاریخ آپ کے ساتھ دہرائی جانے والی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنی خصوصی مدد سے بچایا ہے تاکہ آپ برصغیر ہند میں قیام امن کا وہ ضروری کردار ادا کر سکیں جس کا تاریخ کو نصف صدی سے انتظار ہے۔
جب یہ خبر آئی کہ آپ حکومت ہند کی دعوت پر انڈیا کا دورہ کرنے والے ہیں تو اس دورہ کے بارے میں میں نے کئی مضمون لکھے جو یہاں کے اردو، ہندی اور انگریزی اخباروں میں شائع ہوئے۔ مثال کے طور پر ساؤتھ انڈیا کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ہت واد (The Hitavada) میں میرا ایک تفصیلی انٹرویو اس کے شمارہ 30 جون 2001 میں چھپا ۔ اس میں ملٹری رولر کی حیثیت سے میں نے آپ کا پرزور دفاع کیا تھا۔ چنانچہ اخبار نے اس انٹرویو کو چھاپتے ہوئے اس کا یہ عنوان دیا:
Military ruler is a blessing for Pakistan
اگر آپ اجازت دیں تو میں کہنا چاہوں گا کہ کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کو وہی پالیسی اختیار کرنا چاہیے جو مشہور انگریزی مقولہ میں اس طرح بیان کی گئی ہی— سیاست ممکن کا آرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
میں ایک خیر خواہ کی حیثیت سے کشمیر کے مسئلہ پر اس کے آغاز ہی سے غور کرتا رہا ہوں۔ 1968 سے میں نے اس موضوع پر لکھنا شروع کیا اور اردو اور ہندی اور انگریزی پریس میں بار بار لکھتا رہا ہوں۔ اس مسئلہ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے میری قطعی رائے ہے کہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے لیے صرف دو ممکن انتخاب (options) ہیں۔ ایک یہ کہ اس معاملہ میں پاکستان ڈی لنکنگ پالیسی(delinking policy) اختیار کرے۔ یعنی کشمیر کے اشو کو پر امن گفت و شنید کے خانہ میں ڈالتے ہوئے بقیہ تمام امور میں ہندستان سے نارمل تعلقات قائم کرلے۔ اور دوسرے یہ کہ جموں و کشمیر میں جغرافی اعتبار سے جو اسٹیٹس کو (status quo) بن گیا ہے اس کو مستقل سرحد کے طورپر مان کر اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ اس کے سوا کوئی تیسرا انتخاب عملی طورپرممکن نہیں۔ تیسری صورت یقینی طور پرصرف تباہی کی صورت ہے، نہ کہ ترقی اور کامیابی کی صورت ۔
اس معاملہ کا ایک اور نہایت اہم پہلو ہے۔آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر جہاد کے نام سے مِلیٹنسی (militancy) چلائی جارہی ہے، ان میں سے ایک نمایاں نام کشمیر کا ہے۔ اس مِلیٹنسی کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوا۔ البتہ اس کا ایک عظیم نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی امیج ایک وائلنٹ مذہب (violent religion) کی ہوگئی۔ اس بدنامی نے موجودہ زمانہ میں اسلام کے آئیڈیالاجیکل مارچ(ideological march) کوروک دیا جو ایک ہزار سال سے مسلسل ساری دنیا میں چلا آرہا تھا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کے لیے یہ رول مقدر کیا ہے کہ آپ اسلام کے اس دعوتی سفر کو دوبارہ جاری کریں۔ اگر آپ انڈیا کے ساتھ مستقل قسم کا ایک پیس ٹریٹی (peace treaty) کر لیں تو اس کا فائدہ نہ صرف پاکستان کو ملے گا بلکہ اس کے نتیجہ میں پوری مسلم دنیا میں ایک نیا صحت مند پراسس جاری ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ ہوگا کہ موجودہ متشددانہ رجحان ایک پر امن دعوتی رجحان میں بدل جائے گا۔ لوگ نارمل فضا میں اسلام کا مطالعہ کرنے لگیں گے۔
موجودہ مبصرین پاکستان کو امکانی طورپر نیو کلیر فلیش پائنٹ (nuclear flashpoint) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ جرأت و ہمت سے کام لے کر حدیبیہ جیسا ایک پیس ٹریٹی کر لیں تو پاکستان برعکس طورپر دعوہ فلیش پائنٹ(dawah flashpoint) بن جائے گا۔
مجھے اندازہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں مصالحت کی پالیسی اختیار کرنا آپ کی مقبولیت کے لیے ایک رِسک (risk) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اس اندیشہ کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا ہے: الصُّلْحُ خَيْرٌ (4:128)۔ یعنی صلح بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلافی معاملات میں ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ کر مصالحت کی پالیسی اختیار کی جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے وہ زیادہ بہتر ثابت ہوگی۔
زندگی میں ہر بڑی کامیابی کا تعلق رسک سے ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ افریقہ میں فرانس کی نو آبادیاتی پالیسی نے فرانس کو بے حد کمزور کردیاتھا۔ جنرل ڈیگال نے جرأت کرکے یک طرفہ طورپر اس پالیسی کو ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس میں جنرل ڈیگال کی مقبولیت بہت کم ہوگئی۔ مگر آج اِس ڈیگال ازم کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسی پالیسی کے نتیجہ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس کو نئی طاقت ملی۔
اس خط کے ساتھ میں دو چیزیں بھیج رہا ہوں۔ ایک اپنی کتاب Islam Rediscovered اور دوسرے، ماہنامہ الرسالہ کا شمارہ اگست 2001۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے لیے کچھ وقت نکال سکیں گے۔ اس مطالعہ سے میرا مدعا مزید واضح ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کا مددگار ہو۔
نئی دہلی 9 جولائی 2001 دعا گو وحید الدین