جنگ ایک ریاستی عمل
اسلام میں جنگ عوام کا کام نہیں ہے بلکہ وہ باضابطہ طورپر قائم شدہ حکومت کا کام ہے۔ یعنی جس طرح عوام وقت آنے پر بطور خود نماز پڑھ لیـتے ہیں اسی طرح وہ بطور خود جنگ یا قتال نہیں کر سکتے۔ جنگ یا قتال کا اعلان صرف ایک قائم شدہ ریاست کر سکتی ہے۔ حکومت اگر پکارے تو عوام اس کے معاون بن کر اس کے تحت شریک ہوسکتے ہیں مگر خود سے وہ ہر گز کوئی جنگ نہیں چھیڑ سکتے۔
قرآن میں ایک عمومی حکم کے طورپر یہ اصول بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی خوف (یا خارجی حملہ) کی صورت پیدا ہو تو عوام کو خود سے کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو صرف یہ کرنا چاہیے کہ وہ اس معاملہ کو اولو الأمر (النساء، 4:83) یعنی حکام تک پہنچائیں اور انہیں موقع دیں کہ وہ حسبِ ضرورت اپنی جوابی کارروائی کا منصوبہ بنائیں۔
یہی بات حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ (صحيح البخاري، حديث نمبر 2957)۔ یعنی حکمراں ڈھال ہے، قتال اس کی ماتحتی میں کیا جاتا ہے اور اسی کے ذریعہ بچاؤ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قتال کا اعلان یا اس کی منصوبہ بندی مکمل طورپر قائم شدہ حکومت کا کام ہے۔ عامۃ المسلمین اس کی ماتحتی میں رہ کر اور اس کے زیر حکم حسب ضرورت اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، اس سے آزاد ہو کر نہیں۔
اس اسلامی اصول سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اس غیر حکومتی جنگ کی کوئی گنجائش نہیں جس کو عام طورپر گوریلا وار(Gorilla War) کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ گوریلا وار عوام کی آزاد تنظیموں کی طرف سے لڑی جاتی ہے، نہ کہ حکومتی ادارہ کی طرف سے۔ خود حکومتی ادارہ کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ کسی ملک یا قوم کے خلاف دفاعی جنگ لڑنا چاہتی ہے تو قرآن کے مطابق، پہلے وہ اس کا باضابطہ اعلان کرے۔ اور اگر اس کے خلاف کوئی معاہدہ ہے تو اس معاہدہ کو وہ منسوخ کردے (الانفال، 8:58)۔ اسلام میں اعلان کے ساتھ جنگ ہے، بلا اعلان جنگ (undeclared war) اسلام میں نہیں۔ اس اصول کے مطابق، پراکسی وار (proxy war) اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام کے تمام اعمال کی کچھ شرائط ہیں۔ اسی طرح اسلام میں جنگ کے لیے بھی کچھ لازمی شرائط ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جنگ خواہ کوئی باقاعدہ مسلم حکومت کرے ، اور خواہ وہ دفاعی ہو، تب بھی اس جنگ کا نشانہ جارح لوگوں تک محدود ہوگا۔ یعنی اس جنگ میں مسلمانوں کی فوج صرف مقاتلین (combatants) پر وار کر سکتی ہے، غیر مقاتلین(non combatants)کو اپنے حملہ کا نشانہ بنانا پھر بھی جائز نہ ہوگا۔
چنانچہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ تم ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کرو جنہوں نے تم سے جنگ نہیں کی۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم حسن سلوک اور انصاف کا معاملہ کرو۔ البتہ جن لوگوں نے تم سے جنگ کی ان سے جنگ کرنے کے لیے تم آزاد ہو۔ ان کے ساتھ تمہارا معاملہ دوستی کا معاملہ نہیں (60:8-9)
اگر بالفرض کسی قوم کے ساتھ مسلم حکومت کی جنگ چھڑ جائے اور یہ جنگ اسلامی شرائط کے مطابق ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ وہ عام شہریوں کے خلاف اس قسم کی تخریبی کارروائی کریں جیسی تخریبی کارروائی مثال کے طورپر ، 11 ستمبر 2001ء کو نیو یارک اور واشنگٹن میں کی گئی۔
اسی طرح جائز اسلامی جنگ میں بھی مسلمانوں کو اجازت نہیں کہ وہ فریقِ ثانی پر خود کش بمباری کریں۔ یعنی بالقصد اپنے جسم پر بم باندھ کر فریقِ ثانی کی فوجی یا شہری آبادی پر ٹوٹ پڑیں اور جان بوجھ کر اپنے کو ہلاک کرکے فریقِ ثانی کو ہلاک کریں۔ اس قسم کا معاملہ ہر گز شہادت یا استشہاد نہیں۔ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں ہے۔