کائنات کا مذہب امن ہے
قرآن کی سورہ یٰس میں ارشاد ہوا ہے :لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ( 36:40) ۔ یعنی نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ اور سب ایک ایک مدار (orbit) میں تیر رہے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں ایک فلکیاتی واقعہ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ دنیا کا نظام کس اصول پر قائم ہے۔و ہ امن کا اصول ہے۔ کائنات کے اندر ان گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے۔ مگر کسی چیز کا دوسری چیز سے ٹکراؤ نہیںہوتا۔ کائنات کا ہر جزء اپنے اپنے دائرہ میں اپنا عمل انجام دیتاہے۔ یہاں کا کوئی جزء کسی دوسرے جزء کے دائرہ کار میں داخل نہیں ہوتا۔ اس لیے ایک کا دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہیں ہوتا۔
یہی امن کلچر انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو بھی یہی کرنا ہے کہ وہ کائنات کے اس ہمہ گیر اُصول کو اپنی زندگی میں اپنا لے، وہ بھی ٹکراؤ کے راستہ کو چھوڑ کر امن کے راستہ پر چلنے لگے۔
کائنات کا کلچر امن کلچر ہے۔ اسی امن کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات اربوں سال سے چل رہی ہے مگر اس میں کوئی ٹکراؤ پیش نہیں آیا جواُس کے نظام میں خلل ڈال دے۔ کائنات میں اگر تشدد کلچر کا رواج ہوتا تواب تک کائنات آپس میں ٹکراکر تباہ ہوچکی ہوتی۔ وہ ہمارے لیے قابل رہائش دنیا کے طورپر موجود ہی نہ ہوتی۔
جس خالق نے کائنات کو پیدا کیاہے اُسی نے انسان کو بھی پیدا کیاہے۔ خالق کو مطلوب ہے کہ اُس نے وسیع تر کائنات میں جو امن کلچر قائم کر رکھا ہے، انسان بھی اُسی امن کلچر کو اپنائے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہ امن کلچر بقیہ کائنات میں فطرت کے زور پر قائم ہے۔ انسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس امن کلچر کو خود اپنے ارادہ اور اپنے فیصلہ کے تحت اپنی زندگی میں اختیار کرے۔