خاموشی میں نجات
حدیثوں میں مختلف انداز سے خاموشی کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من صمت نجا (سنن الترمذي، حديث نمبر 2501، سنن الدارمي، حديث نمبر 2755؛ مسند احمد، حديث نمبر 6481) یعنی جو شخص چُپ رہا اُس نے نجات پائی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بولنا چھوڑ دے، وہ بالکل خاموش رہے۔ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آدمی خاموش رہ کر سوچے، وہ پہلے خاموش رہ کر معاملہ کو سمجھے، اس کے بعد وہ بولے۔ یہ بلاشبہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ اپنی تربیت کرکے یہ عادت ڈالے کہ وہ بولنے سے زیادہ خاموش رہے۔ وہ بولے تو اُس وقت بولے جب کہ وہ سوچنے کا کام کر چکا ہو۔
یہ تربیت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ روزانہ کے معمول کی بات چیت میں وہ بالقصد اپنے آپ کواس کا عادی بنائے۔ اگر آدمی اپنی روزمرہ کی معمولی بات چیت میں یہ عادت ڈال لے تو اپنی اس عادت کی بناپر وہ اس وقت بھی ایسا ہی کرے گا جب کہ خلاف معمول کوئی بات پیش آگئی ہو۔
عام طورپر لوگ یہ کرتے ہیں کہ جب اُن کے سامنے کوئی بات آتی ہے تو فوری طورپر اُس کا جو جواب اُن کے ذہن میں آتا ہے، اُس کو اپنی زبان سے بولنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے سوچنے کا عمل کیا جائے اور پھر اُس کے بعد بولنا شروع کیاجائے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ اس انجام سے بچ جائیں گے کہ وہ اپنے بولے ہوئے الفاظ پر پچھتائیں۔ وہ اپنے کہے ہوئے بول کو لوٹانا چاہیں، حالاںکہ کسی کا کہا ہوا بول دوبارہ اُس کی طرف لوٹنے والا نہیں۔
عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی خلاف مزاج بات سامنے آتی ہے تو آدمی بھڑک کر ناپسندیدہ انداز میں کلام کرنے لگتا ہے۔ اس سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روز مرہ کی معمولی بات چیت میں آدمی اس کی عادت ڈالے کہ وہ پہلے سوچے اور پھر بولے۔ جب ایسا ہوگا کہ معمول کی بات چیت میں وہ بولنے سے پہلے سوچنے کا عادی ہو جائے گا تو وہ اپنی اس عادت کی بنا پر خلاف معمول بات چیت میں بھی اسی طریقہ پر کار بند رہے گا۔ عام بات چیت میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولنے کی عادت اُس کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ ہنگامی مواقع پر بھی اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولے، وہ ذہنی ڈسپلن کے ساتھ بات چیت کرے۔
دنیا کے اکثر فتنے الفاظ کے فتنے ہیں۔ کچھ الفاظ نفرت اور تشدد کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ اور کچھ دوسرے الفاظ امن اور انسانیت کا ماحول قائم کرتے ہیں۔ اگر آدمی صرف یہ کرے کہ وہ بولنے سـے پہلے سوچے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بولے تو بیشتر فتنے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گے۔
اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر کلام کرنا ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ یہ صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے جو اپنے آپ پر نظر ثانی کرتے رہیں، جو اپنے قول و عمل کا حساب لیتے رہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کوئی بات سُنے تو وہ فوراً اُس کا جواب نہ دے، وہ فوراً اپنا رد عمل پیش نہ کرے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے ٹھہر کر سوچے کہ کہنے والے نے کیا بات کہی ہے اور میری طرف سے اس کا بہتر جوا ب کیا ہوسکتا ہے۔ بات کو سن کر ایک لمحہ کے لیے ٹھہرنا اس بات کی یقینی ضمانت ہے کہ وہ سنی ہوئی بات کادرست جواب دے گا، وہ پتھر کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے پتھر کا جواب پھول سے دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔