حکمت کا تقاضا
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاتشددوا علی انفسکم فیشدد علیکم ( سنن ابو داؤد، حديث نمبر 4904)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم تشدد والا طریقہ اختیار نہ کرو۔ ورنہ تمہارے حالات اور زیادہ شدید ہو جائیں گے۔ موجودہ زمانہ میں اس کی مثال ہر اس مسلم ملک میں پائی جاتی ہے جہاں اپنے مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ انہیں میں سے ایک کشمیر بھی ہے۔
کشمیر میں جو تشدد کلچر چلایا گیا، اس کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوا البتہ نقصان اتنا زیادہ ہوا جس کی کوئی گنتی نہیں کی جاسکتی—معیشت تباہ ہوگئی، تعلیمی نظام درہم برہم ہوگیا، تقریباً ایک لاکھ آدمی ہلاک ہوگئے۔ اس سے زیادہ لوگ وہ ہیں جو جسمانی معذوری کا شکار ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ اخلاقی روایات ٹوٹ گئیں۔ جس کشمیریت کے نام پر تحریک چلائی گئی، وہ کشمیریت تباہ ہو کر رہ گئی۔
انہیں میں سے ایک عظیم نقصان یہ ہے کہ کشمیر کے بیشتر با صلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کشمیر کو چھوڑ کر باہر کے علاقوں میں چلے گئے۔
کشمیر کی ٹورسٹ انڈسٹری اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتی تھی۔ اس کی بدولت تجارتی سرگرمیاں یہاں سال بھر جاری رہتی تھیں۔ مگر اب یہ حال ہے کہ وہاں کی ٹورسٹ انڈسٹری تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ ایک کشمیری نے کہا کہ اس ٹورسٹ انڈسٹری کی بدولت کشمیر کا یہ حال تھا کہ ہم پتھر لے کر سڑک پر بیٹھ جاتے تھے تو وہ بھی ایک قیمتی سودے کی طرح بکتا تھا مگر آج یہ حال ہے کہ ہمارے سیب کا بھی کوئی خریدار نہیں۔ کشمیری عوام کے نام پر اٹھائی جانے والی اس تحریک کا کوئی فائدہ کشمیری عوام کو تو نہیں ملا البتہ کشمیر کے نام نہاد لیڈر وں کو ضرور اس سے فائدہ پہنچا۔
قرآن نے اپنے پیروؤں کو جو تعلیم دی ہے ان میں سے ایک یہ ہے—تم لوگ اس چیز پر غم نہ کرو جو تم سے کھویا گیا ( 57:23)۔
یہ آیت در اصل فطرت کے اس قانون کو بتاتی ہے جو اللہ نے اس دنیا میں مقرر کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق، ہر انسان اور ہر گروہ کے ساتھ لازمی طورپر کھونے کا تجربہ پیش آتا ہے۔ کوئی بھی فرد یا قوم فطرت کے اس قانون سے مستثنیٰ نہیں۔ یہ اللہ کی اس حکمت تخلیق کا ایک جزء ہے جس کے تحت اس نے اس دنیا کو بنایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ اللہ کا قانون ہے اور اللہ کے قانون کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
مگر اسی کے ساتھ فطرت کا دوسرا لازمی قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں مواقع (opportunities) کبھی ختم نہ ہوں۔ اس دنیا میں جب بھی ایک موقع ختم ہوتا ہے تو فورًا ہی دوسرا موقع اس کے ساتھ لگا ہوا چلا آتا ہے۔ اس لیے عقل مندی یہ ہے کہ آدمی کھوئے ہوئے موقع کو بھلائے اور نئے موقع کو استعمال کرے۔ یہی آج کشمیریوں کو کرنا چاہیے۔
استحصالی لیڈر محرومیوں کے نام پر اپنی لیڈری چلاتا ہے۔ حقیقی لیڈر وہ ہے جو یافت کے اصول پر اپنی تحریک چلائے۔ جو موانع کے بجائے مواقع کی نشان دہی کرکے اپنی قوم کو نئے مستقبل کا راستہ دکھائے۔