دونوں کی جیت

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی زمین پر دو آدمیوں یا دو گروہوں کے درمیان نزاع ہوجاتی ہے۔ زمین کا کچھ حصہ ایک گروہ کے پاس ہوتا ہے اور بقیہ حصہ دوسرے گروہ کے پاس۔ اب ایک صورت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حصہ کو چھیننے کے لیے آپس میں لڑتے رہیں، یہاں تک کہ دونوں تباہ ہوجائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں اس پر راضی ہو جائیں کہ جو حصہ جس گروہ کے قبضہ میں ہے، وہ اس کے پاس رہے اور دونوں باہمی لڑائی کو چھوڑ کر اپنے اپنے حصہ کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو جائیں۔ نزاع کے حل کے اس طریقہ کو امریکی اصطلاح میں ، میں بھی جیتا، تم بھی جیتے (win-win solution) کہا جاتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جموں اور کشمیر کے سوال پر انڈیا اور پاکستان کے لیے یہی بہترین قابل عمل فارمولا ہے۔ دونوں ملکوں کے قبضہ میں جموں و کشمیر کا ایک ایک حصہ ہے۔ دونوں اگر وِن وِن سولوشن کے اصول پر اپنے اپنے حصہ پر راضی ہوجائیں اور جھگڑے کا راستہ چھوڑ کر حاصل شدہ کی تعمیر پر اپنی بھر پور کوشش لگا دیں تو یقینی طورپر یہ دونوں ملکوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا۔دونوں کے یہاں ترقی کا وہ سفر شروع ہوجائے گا جو لمبی مدت سے رکا ہوا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ پاکستان کے پاس ریاست جموں و کشمیر کا جو حصہ ہے وہ مقابلۃً کم ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں رقبہ کی کمی یا بیشی کی حیثیت محض اضافی ہے۔ اصل اہمیت یہ ہے کہ اپنے حاصل شدہ رقبہ کو محنت اور دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

دنیا میں اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔مثلاً دبئی، ہانگ کانگ، تائی وان، سنگا پور، وغیرہ رقبہ کے اعتبار سے بہت چھوٹے ہیں، مگر ترقی اور خوشحالی کے اعتبار سے وہ بہت سے بڑے بڑے ملکوں سے بہتر حالت میں ہیں۔

انسان ایک نفسیاتی مخلوق ہے۔ یہ دراصل نفسیات ہے جو کسی انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کسی انسان کے اندر اگر منفی نفسیات پیداہو جائے تو اس کی پوری شخصیت منفی شخصیت بن جائے گی۔ اس کے برعکس اگر کسی کی نفسیات مثبت نفسیات بن جائے تو اس کی پوری شخصیت مثبت شخصیت میں ڈھل جائے گی۔

جموں و کشمیر کا مسئلہ 1947 سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تلخی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس لمبی مدت میں دونوں ایک دوسرے کو حریف کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ دونوں کا احساس یہ رہا ہے کہ فریقِ ثانی نے اس کا حق چھین رکھا ہے۔ اس دو طرفہ احساس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں گویا ’’میں بھی ہارا،تم بھی ہارے‘‘  کی نفسیات میں جیتے رہے۔ دونوں پڑوسیوں کے درمیان وہ معتدل فضا باقی نہ رہی جو دونوں ہی کی ترقی کے لیے ضروری تھی۔

اب اگر دونوں ملک دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ’’میں بھی ہارا، تم بھی ہارے‘‘ کی منفی نفسیات سے باہر آجائیںاور اس کے بجائے، دونوں ’’میں بھی جیتا، تم بھی جیتے‘‘ کے مثبت فارمولے کو اختیار کرلیں تو اچانک دونوں ملکوں کے درمیان انسانی ترقی کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔ اس کے بعد وہ حقیقی انڈیا اور وہ حقیقی پاکستان بننا شروع ہو جائے گا جس کا خواب دونوں ملکوں کے بانیوں نے دیکھا تھا۔

اب تک دونوں پڑوسی ملک اس احساس میں جیتے رہے ہیں کہ سرحد کے دوسری طرف سے انہیں ایک دشمن ملک کا خطرہ درپیش ہے، اس کے بعد دونوں یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ سرحد کے دوسری طرف ان کا ایک دوست ملک موجود ہے۔ اب تک دونوں ملک محرومی کے احساس میں جی رہے تھے، اس کے بعد دونوں ملک یافت کے احساس میں جینے لگیں گے۔ اب تک دونوں ملک اپنے آپ کو مسائل میں گھرا ہوا سمجھتے تھے، اس کے بعد دونوں ملک یہ محسوس کریں گے کہ وہ کھلے ہوئے مواقع کے درمیان ہیں۔ بظاہر جغرافی اور سیاسی تقسیم کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ایک برتر انسانی اور تعمیری وحدت قائم ہو جائے گی۔اور یہ سب کرشمہ ہوگا اس بات کا کہ دونوں نے  وِن  وِن سولیوشن کے طریقہ کو اختیار کر لیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom