پیغمبر اسلام کا نمونہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر 610ء میں مکہ میں پہلی وحی اتری۔ اللہ نے آپ کو جس مشن پر مامور کیا وہ توحید کا مشن تھا۔ اس مشن کی نسبت سے مکہ میں ایک بہت بڑا عملی مسئلہ موجود تھا۔ وہ یہ کہ کعبہ جس کو اللہ کے پیغمبر ابراہیم اور اسماعیل نے توحید کے گھر کی حیثیت سے بنایا تھا اس کو بعد کے زمانہ میں عملاً شرک کا مرکز بنا دیا گیا ۔وہاں 360 بت رکھ دئے گئے۔
اس صورت حال کا بظاہر یہ تقاضا تھا کہ قرآن میں پہلا حکم اس مفہوم کا اترے کہ:طَھِّر الکعبۃ من الأصنام (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔ مگر اس مسئلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس وقت قرآن میں پہلا حکم یہ اترا کہ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ( 74:4) یعنی اپنے اخلاق اور سیرت کی تطہیر کرو۔ اگر پہلے ہی مرحلہ میں پیغمبر اسلام کو کعبہ کی تطہیرکا حکم دیا جاتا تو اس وقت جب کہ مکہ پر مشرکین کا غلبہ تھا، یقینی طورپر یہ حکم فورًا ٹکراؤ اور جنگ کا سبب بن جاتا۔ چنانچہ اس حکم کے مطابق، پیغمبر اسلام مکی دور کے تیرہ سال تک کعبہ میں پُر امن طورپر نماز پڑھتے رہے جب کہ وہاں سیکڑوں کی تعداد میں بُت رکھے ہوئے ـتھے۔ اسی طرح آپ نے اور آپ کے اصحاب نے عمرۃ الحدیبیہ (629ء) کے موقع پر کعبہ کا طواف کیا، جب کہ اس وقت کعبہ میں 360 بت بدستور موجود تھے۔
پیغمبر اسلام نے ایسا اس لیے کیا تا کہ مشرکین سے جنگ اور ٹکراؤ کو اوائڈ(avoid)کیاجا سکے اور امن کی حالت برقرار رہے۔ آپ کی پوری زندگی اسی امن پسندانہ پالیسی کی مثال تھی— مکہ سے ہجرت کے موقع پر مشرکین جنگ پر آمادہ تھے مگر آپ خاموشی کے ساتھ مکہ سے نکل کر مدینہ چلے گئے۔ حدیبیہ ٹریٹی (628ء) کے موقع پر پورے معنوں میں جنگی حالات پیدا ہوگئے تھے۔ مگرآپ نے مشرکین کی یک طرفہ شرطوں پر راضی ہو کر ان سے امن کا معاہدہ کر لیا۔ غزوہ ٔ خندق ( 627ء) کے موقع پر مشرکین کی بارہ ہزار فوج مدینہ کی سرحد پر جنگ کا چیلنج کر رہی تھی۔ مگرآپ نے لمبی خندق کھود کر اپنے اور دشمنوں کے درمیان ایک فاصل (buffer) قائم کر دیا،وغیرہ۔
اسلام توحید کا مشن ہے۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو ایک اللہ کا پرستار بنایا جائے۔ لوگوں کے دل و دماغ کو اس طرح بدلا جائے کہ وہ صرف ایک اللہ سے محبت کریں (البقرہ، 2:165) اور صرف ایک اللہ سے خوف کریں (التوبہ، 2:18)۔ صرف ایک اللہ ان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔
اس قسم کا دعوتی مشن جنگ اور متشددانہ ٹکراؤ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ جنگ اور تشدد کے حالات پیدا ہونے کے بعد وہ معتدل فضا ختم ہو جاتی ہے جب کہ ذہنی اصلاح اور روحانی انقلاب کی کوئی تحریک مؤثر طورپر چلائی جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ پر امن حالات ہمیشہ اسلام کے لیے موافق فضا بناتے ہیں اور پُر تشدد حالات ہمیشہ اسلام کے لیے مخالف فضا وجود میں لاتے ہیں۔