دار الحرب کی اصطلاح
دار الحرب کی اصطلاح دورِ عباسی میں بننے والی فقہ میں ضرور استعمال ہوئی ہے مگریہ اصطلاح قرآن اور حدیث میں مذکور نہیں۔ یہ فرق واضح کرتا ہے کہ دار الحرب کی اصطلاح ایک اجتہادی اصطلاح ہے، وہ کوئی منصوص اصطلاح نہیں۔ اور جو نظریہ اجتہادی ہو اُس کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ وہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔
میرے نزدیک دار الحرب کی اصطلاح ایک اجتہادی خطا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے۔ مگر آپ نے کسی بھی علاقہ کو دار الحرب قرار نہیں دیا۔ اگر قرآن وسنت میں اجتہاد کرکے اس سلسلہ میں کوئی اصطلاح بنائی جائے تو وہ صرف ایک ہوگی، اور وہ دار الدعوہ ہے۔ یہی اسلامی روح کے مطابق ہے۔ اسلام ہر قوم کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے،خواہ اہلِ اسلام کاتعلق اُن سے امن کا ہو یا حرب کا۔ اس لیے صحیح اسلامی نظریہ کے مطابق، صرف دو اصطلاحیں درست ہیں— دار الاسلام اور دار الدعوہ۔ اس کے سوا جو بھی اصطلاحیں بولی گئی ہیں وہ سب میرے نزدیک اجتہادی خطا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مثلاً دار الحرب، دار الکفر، دار الطاغوت، وغیرہ۔