نارتھ انڈیا اور ساؤتھ انڈیا کا فرق

کمیونل ہارمنی کا سوال بنیادی طورپر نارتھ انڈیا کا سوال ہے۔ ساؤتھ انڈیا میں آج بھی کمیونل ہارمنی پوری طرح پائی جاتی ہے۔ کمیونل ہارمنی یا نیشنل انٹگریشن کے نام سے ہم جیسا سماج بنانا چاہتے ہیں وہ سماج بر وقت ہی ساؤتھ انڈیا میں موجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، فرقہ وارانہ جھگڑوں کے تقریباً تمام واقعات نارتھ انڈیا کے علاقہ میں ہوتے ہیں۔ جہاں تک ساؤتھ انڈیا کا تعلق ہے، وہاں فرقہ وارانہ جھگڑے اتنے کم ہیں کہ وہ کسی گنتی میں نہیں آتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فرق کا مطالعہ ہمارے لیے ایک رہنما مطالعہ بن سکتا ہے۔

مزید یہ کہ خود نارتھ انڈیا کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک شہری علاقہ اور دوسرا دیہات کا علاقہ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ بیشتر فرقہ وارانہ جھگڑے شہروں میں ہوئے ہیں یا ہوتے ہیں۔ جہاں تک دیہات کے علاقہ کا تعلق ہے، وہاں شاذونادر ہی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ اس فرق کا مطالعہ بھی بے حد اہم ہے۔ اس سے ہمیں نہ صرف واقعات کی توجیہہ میں مدد ملتی ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے کہ فرقہ وارانہ نزاعات کو ختم کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنا ان تدابیر کے ذریعہ ممکن ہے۔

قومی یکجہتی کے سلسلہ میں ہندوؤں کے کچھ عقائد ہیں جن سے مسلمانوں کو شکایت ہے۔ یہاں میں ان سے بحث نہیں کروں گا۔ اس معاملہ میں میرا مشورہ مسلمانوں کو یہ ہے کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق اعراض اور رواداری (avoidance and tolerance) کا طریقہ اختیار کریں۔ البتہ کچھ شکایتیں یا غلط فہمیاں ہندوؤں کو مسلمانوں کے بارے میں ہیں۔ یہاں میں اس دوسرے مسئلہ کی کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور کچھ اسلامی اصطلاحات کی تشریح کرناچاہتا ہوں جو دونوں فرقوں کے درمیان غلط فہمی کا باعث ہیں یا باعث بن سکتی ہیں۔

یہاں میں ضمناً ایک بات کہوں گا۔ ہمارے یہاں عام رواج یہ ہے کہ مسلمان کوئی غلطی کریں تو ہندو اس کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ اسی طرح ہندو اگر کوئی غلطی کریں تو مسلمان اُس کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہ طریقہ اصلاح کے نقطۂ نظر سے بالکل بے فائدہ ہے۔ ایسی باتوں کو ایک فریق اپنی وکالت سمجھ کر خوش ہوگا مگر دوسرا فریق اُس سے کوئی مثبت اثر نہ لے گا۔

اس کے برعکس، صحیح اور مفید طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اگر غلطی کریں تو خود مسلمانوں کے علماء اور دانشور اس کے خلاف بولیں اور لکھیں۔ اسی طرح ہندو اگر کوئی غلطی کریں تو ہندوؤں کے ذمہ دار اس کے خلاف لکھیں اور بولیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی گھر کا کوئی لڑکااگر غلطی کرے تو سب سے پہلے اُس کا اپنا باپ اُس کی تنبیہہ کرتا ہے۔ باپ اس کا انتظار نہیں کرتا کہ محلہ کے لوگ آکر اس کے خلاف بولیں۔ اور اگر محلہ کے لوگ آکر اس کے خلاف بولیں تو بچہ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا۔

یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ اپنوں کی تنبیہہ کو آدمی مثبت ذہن سے سنتا ہے اور اپنی اصلاح کرتا ہے۔اس کے برعکس غیر کی تنبیہہ کو وہ وقار کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ وہ اس کا کوئی مثبت اثر قبول نہیں کرتا۔ فرقہ وارانہ اتحاد کے سلسلہ میں اس حکمت عملی کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom