کشمیر جنت نظیر
کشمیر کو سیکڑوں سال سے جنت نظیر کہا جاتا تھا۔ یعنی جنت کا نمونہ۔ ایک فارسی شاعر نے جب کشمیر کو دیکھا تو اس نے کشمیر کے بارے میں یہ شعر کہا کہ اگر جنت زمین پر ہے تو وہ یہی کشمیر ہے:
اگر فردوس بر روئے زمیں است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
پچھلے زمانوں میں جب کہ کشمیر کو جنت نظیر کہا جاتا تھا، اس وقت کشمیر میں ’’کشمیری عوام‘‘ کی حکومت نہ تھی۔ پہلے یہاں مغلوں کا راج تھا۔ اس کے بعد یہاں انگریز حکومت کرنے لگے۔ اس کے بعد یہاں ڈوگرہ راجہ کی حکومت قائم ہوئی۔ اس پوری مدت میں کشمیر ایک جنت نظیر خطہ بنا رہا۔ ساری دنیا کے لوگ اس کو دیکھنے کے لیے آتے رہے۔ برصغیر ہند میں تاج محل اگر عمارتی حسن کا اعلیٰ نمونہ تھا تو کشمیر قدرتی حسن کا اعلیٰ نمونہ۔
اس تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کشمیر کو کشمیر بنانے کے لیے اس کی ضرورت نہیں کہ وہاں نام نہاد طورپر ’’کشمیری عوام‘‘ کی حکومت ہو۔ سیاسی اقتدار در اصل ایک قسم کا سیاسی در دِ سر ہے۔ یہ سیاسی دردِ سر خواہ جس کے حصہ میں آئے، کشمیر بدستور کشمیر رہے گا۔ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کی اپنی تعمیری سرگرمیوں کے سوا کشمیر کی ترقی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
قرآن میں ہر اس چیز کا ذکر ہے جو انسان کے لیے خیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر قرآن میں آزادی یا حریت کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آزادی محض ایک پرفریب لفظ ہے، اس کی کوئی حقیقی معنویت نہیں۔ اس کا واضح عملی ثبوت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں تقریباً ساٹھ مسلم ملک ہیںجنہوں نے زبردست قربانی کے بعد آزادی کو حاصل کر لیا۔ مگر یہ تمام کے تمام ملک عملاً غیر آزاد بنے ہوئے ہیں۔ اس کی قریبی مثالیں پاکستان اور افغانستان اور بنگلہ دیش، وغیرہ ہیں۔ ان مسلم ملکوں میں یہ ہوا کہ آزادی کی خارجی لڑائی آخر میں اقتدار کی باہمی لڑائی بن گئی۔ کشمیریوں کے لیے بھی یہی انجام مقدر ہے۔ یا تو وہ اپنی نام نہاد آزادی کی جنگ جاری رکھیں جس کا آخری انجام صرف یہ ہے کہ خارجی لڑائی داخلی لڑائی کی مہلک تر صورت اختیار کرلے۔ یا وہ اپنی موجودہ سیاسی لڑائی کو ختم کر کے اپنی ساری کوششوں کو تعمیر و ترقی کے کام میں لگا دیں۔
جولائی 2001 کے آخر میں میں ایک ہفتہ کے لیے سوئزر لینڈ میں تھا۔ یہ سفر ایک انٹرنیشنل کانفرنس کی دعوت پر ہوا۔ وہ لوگ ہم کو سوئزر لینڈ کے مختلف مقامات پر لے گئے اور اس طرح ہم کو سوئزر لینڈ کے بیشتر حصے کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ہماری ٹیم میں ایک 80 سالہ کشمیری خاتون بھی تھیں۔انہوں نے جب سوئزر لینڈ کے حسن کو دیکھا تو وہ بے اختیار رونے لگیں۔ ان کی زبان سے نکلا کہ ہمارا کشمیر بھی ایسا ہی خوبصورت تھا مگر آج وہ تباہ ہو چکا ہے۔
کشمیر کو کس نے تباہ کیا۔ کشمیر کی تباہی کی ذمہ دار کوئی حکومت نہیں۔ اس کی ذمہ داری تمام تر ان نادان لیڈروں پر ہے جنہوں نے اپنی پرجوش تحریر و تقریر سے کشمیری نوجوانوں کو بھڑکا یا اور انہیں تباہ کن جنگجوئی کے راستہ پر ڈال دیا۔ یہ لیڈر اگر کشمیری نوجوانوں کو تعلیم اور تعمیر کے راستہ پر ڈالتے تو آج کشمیر شاید سوئزرلینڈ سے بھی بہتر ہوتا۔ مگر نااہل لیڈروں کی نااہل رہنمائی نے کشمیر کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے جس کی تلافی کے لیے شاید ایک صدی کی مدت بھی ناکافی ہو۔
ضرورت ہے کہ اب کشمیر کے عوام و خواص جنگجوئی کے راستہ کو مکمل طورپر اور ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ وہ پر امن تعمیر کے طریقہ کو اختیار کرلیں۔ اگر کشمیر کے لوگ حقیقی فیصلہ کے ساتھ اس تعمیری راستہ کو اختیار کر لیں تو وہی وہ وقت ہوگا جب کہ کشمیر کی وادیوں میں ہر طرف یہ آوازسنائی دے— جاگ اٹھا کشمیر۔