اسلام میں ٹیررزم نہیں
اسلام کے مطابق، ٹیررزم (دہشت گردی) کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ ٹیررزم سادہ طورپر، غیر ریاستی تشدد کا دوسرا نام ہے۔ تشدد کے ذریعہ کسی مقصد کا حصول، بوقت ضرورت، صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کے لیے درست ہے۔ غیر حکومتی افراد یا جماعتوں کے لیے کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔ اگر کسی شخص یا گروہ کو کوئی شکایت ہو تو اس کے لیے جائز طورپر صرف دو صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو وہ پر امن حدود میں رہ کر اپنی شکایت کا حل تلاش کرے، یا وہ اپنے معاملہ کو عدالت اور حکومت کے سپرد کردے تاکہ وہ قانون کے مطابق، دخل دے کر اس کے معاملہ کو حل کریں۔
آج کل میڈیا میں اکثر اسلامک ٹیررزم (اسلامی دہشت گردی) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ بلاشبہ غلط ہے۔ اسلام کو ٹیررزم کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ تاہم اس معاملہ میں اصل ذمہ دار میڈیا نہیں ہے بلکہ وہ مسلمان ہیں جو میڈیا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کے عمل کو اس قسم کے عنوان کے ساتھ رپورٹ کرے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان مختلف مقامات پر غیر حکومتی جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ یہ تمام جنگیں یقینی طورپر ملک و مال کے لیے یا مسلم قومی مفاد کے لیے ہیں۔ مگر جو مسلمان اس قسم کی متشددانہ تحریکیں چلا رہے ہیں وہ ان کو اسلامی جہاد کا نام دیتے ہیں۔ اب ظاہرہے کہ میڈیا کا کام تجزیہ کرنا نہیں ہے بلکہ رپورٹ کرنا ہے۔ چنانچہ میڈیا مسلمانوں کے اس قسم کے متشددانہ عمل کو اسی طرح اسلام کے ساتھ منسوب کردیتا ہے جس طرح خود مسلمان ان کو اسلام کے ساتھ منسوب کیے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان جب اپنے تشدد کو اسلام کا عنوان دیں تو میڈیا بھی اپنی رپورٹنگ میں اس کو اسلام ہی کا عنوان دے گا، نہ کہ کسی اور چیز کا۔
مسلمانوں کی اس روش نے موجودہ زمانہ میں اسلام کو بہت زیادہ بدنام کیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں اسلام کی تصویر خلاف واقعہ طورپر یہ بن گئی ہے کہ اسلام نفرت اور تشدد کا مذہب ہے، نہ کہ امن اور انسانیت کا مذہب۔
مثال کے طورپر ملاحظہ ہو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (1 اکتوبر 2001) میں مسٹر امولیہ گنگولی کا مضمون اسلام کی تصویر (Image of Islam)۔ اسی طرح لندن کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں شائع شدہ مضمون جس کا عنوان یہ ہے— ایک مذہب جو تشدد کو جائز قرار دیتا ہے:
A religion that sanctions violence.
اسلام کواس بدنامی سے بچانے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ مسلمان اپنی قومی لڑائیوں کو اسلام کا عنوان دینا چھوڑ دیں۔ اس معاملہ میں وہ جو کچھ کریں ان کو اپنی قوم کی طرف منسوب کریں، نہ کہ اسلام کی طرف۔ تا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کا اپنا قومی عمل سمجھا جائے، نہ کہ اسلامی اور دینی عمل۔