جنگ ایک غیر مطلوب شئے
اسلام کے لیے جنگ کا ماحول اتنا ہی غیر مطلوب ہے جتنا کہ تجارت کے لیے نفرت و تشدد کا ماحول غیر مطلوب ہے۔ تجارت امن اور اعتدال کے ماحول میں کامیاب ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے مقاصد صرف امن کے حالات اور نارمل تعلقات میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ: أیّھا الناس لا تتمنوا لقاء العدو، و سلوا اللہ العافیۃ (صحيح البخاري، حديث نمبر 2966؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 1742؛ ابو داؤد، حديث نمبر 2631؛ مسند احمد، حديث نمبر 19114) یعنی اے لوگو، تم دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو، بلکہ تم اللہ سے امن مانگو۔
جنگ کرنے والے ہمیشہ سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے جنگ کرتے ہیں اور سیاسی اقتدار اسلام میں کوئی ایسی چیز ہی نہیں جس کے حصول کے لیے جنگ کی جائے۔ قرآن کے مطابق، سیاسی اقتدار اہلِ اسلام کا نشانہ نہیں بلکہ وہ ایک امرِ موعود (النور،24:55) ہے۔ قرآن کے مطابق، اقتدار کا مالک اللہ ہے، وہی جس کو چاہتا ہے اسے دیتا ہے اورجس سے چاہتا ہے اس سے اس کو چھین لیتا ہے (آل عمران، 3:26)۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار اور سیاسی فتح کبھی ایک کے حصہ میں آتی ہے اور کبھی دوسرے کے حصہ میں (آل عمران، 3:140)۔
اس قرآنی حقیقت کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی اقتدار کا ملنا یا سیاسی اقتدار کا چھینا جانا دونوں فطرت کے قانون کے تحت پیش آتے ہیں، اقتدار نہ کسی گروہ کو اس کی کوشش سے ملتا ہے اور نہ کسی دوسرے گروہ کی سازش اس کو کسی سے چھین سکتی ہے۔