کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے

کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ ہر مذہبی اور غیر مذہبی سسٹم میں اس کی اجازت ہے۔ مگر تشدد میرے نزدیک اس سے الگ ایک اور فعل کا نام ہے۔ اس پہلو سے اسلام میں قطعاً تشدد کی اجازت نہیں۔ تشدد کا لفظ عام طورپر جس مفہوم میں بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کیا جائے۔ اور اس قسم کے تصور کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ کوئی شخص کسی کو اپنا دشمن سمجھے تو اس بنا پر اُس کے لیے جائز نہیں ہوجاتا کہ وہ اُس کو ختم کرنے کے نام پر اُس کے خلاف تشدد کرنے لگے۔

قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دشمن اور جارح کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اگر کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کے خلاف یک طرفہ طورپر متشددانہ جارحیت کرے تو قرآن کے مطابق، اُس کو حق ہے کہ وہ ایسے جارح کے خلاف دفاعی کارروائی کرے اور بقدرِ ضرورت جوابی تشدد کا استعمال کرے۔ قرآن کی سورہ الحج میں کہا گیا ہے کہ لڑنے کی اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف لڑائی کی جارہی ہے:

Permission of fighting is given to those who are attacked. (22:39)

مگر دشمن کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔دشمن کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم عین وہی ہے جو مسیح کی زبان سے بائبل میں اس طرح آئی ہے کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو:

Love your enemy (Luke 6-31)

قرآن میں دشمنانہ سلوک کا جواب دشمنانہ سلوک کے ساتھ دینے سے منع کیا گیا ۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا  (41:34)۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق، دشمن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ دشمن کو اپنا دوست بنانا ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر انسان اصلاً مسٹر نیچر ہے۔ وہ صرف وقتی طورپر کبھی مسٹر دشمن بن جاتا ہے۔ اگر اُس کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کیاجائے تو وہ اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور ماضی کا دشمن حال کا دوست بن جائے گا۔

اب غور کیجئے کہ کوئی شخص تشدد کیوں کرتا ہے۔ اس کا ایک سبب آئیڈیالاجیکل ایکسٹریمزم ہے۔ جہاں ایکسٹریمزم نہ ہو وہاں تشدد بھی نہ ہوگا۔ چنانچہ اسلام میں ایکسٹریمزم کو منع کرکے اس قسم کے تشدد کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اسلام نے کہا کہ دین میں کسی قسم کا غلو نہیں (سنن النسائي، حديث نمبر 3057؛ سنن ابن ماجه، حديث نمبر 3029؛ مسند احمد، حديث نمبر 1851)

There is no extremism in the religion of Islam.

اسی طرح تشدد کا ایک سبب غصہ ہے۔ اور اسلام میں غصہ کو ایک بہت بڑی اخلاقی بُرائی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں (الشوریٰ،42:37)۔اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کے مطابق لوگ ایسا کریں کہ جب انہیں کسی پر غصہ آئے تو وہ اُس کو معاف کردیں، ایسی صورت میں تشدد کی نوبت ہی نہ آئے گی۔

تشدد کو استعمال کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ تشدد ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس طاقتور ذریعہ کو استعمال کرکے وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتاہے۔ مگر قرآن میں اس ذہن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے مطابق، تشدد صرف ایک بے نتیجہ قسم کا منفی رد عمل ہے، وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی مؤثراور مفید ذریعہ نہیں۔

قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ کسی سے تمہاری نزاع قائم ہو تو نزاع کو ٹکراؤ تک نہ جانے دو جوآخر کار تشدد بن جاتا ہے۔ بلکہ نزاع کو مصالحانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردو۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ صلح بہتر ہے (4:128)

Reconciliation is the best.

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب کسی سے کسی معاملہ میں نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو اُس کے حل کے لیے مصالحانہ طریقِ عمل(conciliatory course of action) اختیار کرو، نہ کہ منازعانہ طریق عمل confrontational course of action) (۔  ظاہر ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کو اختیار کیاجائے تو نزاع پیدا ہونے کے باوجود تشدد کی نوبت نہیں آئے گی۔

اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے پیغمبر اسلام کا ایک قول بہت زیادہ مددگار ہوسکتا ہے۔ وہ قول یہ ہے :إِنَّ اللهَ...يُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2593) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔

پیغمبر اسلام کے اس قول میں فطرت کانظام بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا نے فطرت کا جو نظام قائم کیا ہے وہ ایسے اصولوں پر مبنی ہے کہ یہاں کسی مقصد کے حصول کے لیے پُر امن طریقہ زیادہ کار آمد اور نتیجہ خیز ہے۔ اس کے مقابلہ میں پُر تشدد طریقہ تخریب کاری تو کرسکتا ہے مگر وہ کسی مثبت مقصد کے حصول کے لیے نتیجہ خیز نہیں ۔

یہاںیہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمان دونوں ایک چیز نہیں۔ اسلام ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے اور مسلمان اُس گروہ کانام ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اسلام کو اپنے مذہب کے طورپر اختیار کیا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم سے جانچا جائے گا، نہ یہ کہ مسلمان جوکچھ کریں اُس کو اسلام سمجھ لیا جائے۔

کوئی مسلمان یا مسلمانوں کا کوئی گروہ اگر تشدد کرے تو یہ اُس کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کی زبان سے کہا جائے گا کہ اگر چہ وہ اسلام کا دعویٰ کرـتے ہیں مگر اُنہوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ (الحجرات، 49:14)

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom