ممکن کی سیاست

زندگی نام ہے دوسرے موقع (second chance) کو استعمال کرنے کا۔ یہ تاریخی حقیقت کشمیر کے بارے میں بھی  اتنا ہی درست ہے جتنا کہ دوسرے ملکوںکے بارے میں ۔ مثلاً انڈیا کے لیے پہلا موقع یہ تھا کہ آزادی کے بعد وہ ایک متحد ہندستان کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر ابھرے۔ مگر یہ پہلا موقع اس کے لیے مقدر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد یہاں کے لیڈروں نے دوسرے ملے ہوئے موقع کو استعمال کیا اوراب انڈیا نہایت تیزی کے ساتھ ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ملک کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ یہی معاملہ پاکستان کے ساتھ پیش آیا۔ پاکستانی لیڈروں کا پہلا خواب یہ تھا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان، دونوں کے مجموعہ کی صورت میں وہ ایک بڑا ملک بنائیں۔ مگر 1972 میں یہ پہلا موقع ان کے لیے ختم ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرے حاصل شدہ موقع کو استعمال کیا۔ اور اب پاکستان مسلم دنیا کے ایک اہم ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہی معاملہ کسی نہ کسی صورت میں دنیا کے ہر ملک کے ساتھ پیش آیا۔ ہر ملک نے کسی نہ کسی صورت میں پہلے موقع کو کھویا ہے۔ مگر دوسرے موقع کو استعمال کرکے اس نے دوبارہ نئی زندگی حاصل کر لی ہے۔

یہی معاملہ کشمیر کا ہے۔ کشمیر کے لیڈروں نے 1947 سے پہلے کشمیر کے بارے میں ایک سیاسی خواب دیکھا تھا۔ یہ گویا ان کے لیے پہلا موقع تھا۔ مگر 1947 کے انقلاب کے بعد یہ پہلا موقع ان سے کھویا گیا۔ اب کشمیر کے لوگوں کے لیے صحیح اورممکن طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسرے موقع کو استعمال کریں، وہ دوسرے موقع کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی نئی تعمیر کریں۔

کشمیری لیڈر کشمیر کو ایک آزاد کشمیر کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ بظاہر یہ ناممکن نہ تھا۔ مگر 1947 کے بعد حالات میں جو فیصلہ کن تبدیلی ہوئی ہے اس نے اب اس کو ناممکن بنا دیا ہے کہ برصغیر ہند کے نقشہ میں آزاد کشمیر کے نام سے کوئی مستقل ملک بنے۔ اب حالات کے اعتبار سے جو چیز ممکن ہے وہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دستور ہند کی دفعہ 370 کے مطابق وہ انڈیا کا ایک حصہ بنے۔ کشمیری لیڈر اب تک ناممکن کی سیاست چلارہے تھے۔ اب انہیں حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے وہ ممکن سیاست چلانا چاہیے جو بر وقت ان کے لیے قابل حصول ہے۔

کشمیر کے بارے میں اس حقیقت کا اندازہ مجھے خدا کے فضل سے ملکی آزادی کے بعد ہی ہوگیا تھا۔ تاہم اس پر میرا پہلا تحریری بیان غالباً وہ ہے جو 1968 میں چھپا تھا۔ یہ پورا بیان اس مجموعہ میں دوسرے مقام پر موجود ہے۔

کشمیریوں کے لیے واحد درست مشورہ یہ ہے کہ وہ ماضی کو بھلا کر حال میں جینا سیکھیں۔ وہ حال کے ممکن نقشہ میں اپنی زندگی کی تعمیر کریں ،نہ کہ ماضی کے نقشہ میں جو کہ اب عملاً خیالی اور تصوراتی بن چکا ہے۔

کشمیر کے بارے میں پاکستان اگر اعتراف حقیقت کی پالیسی اختیار کر لے تو یہ پاکستان کے لیے کوئی نئی چیز نہ ہوگی۔ اس سے پہلے وہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کے بارے میں اعتراف حقیقت کی یہی پالیسی اختیار کرچکا ہے۔ ایسی حالت میں پاکستان کے لیے اس معاملہ میں کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom