جہاد کا تصور

کچھ مسلمانوں کی غلط تعبیر کے نتیجہ میں ، جہاد کا تصور یہ بن گیا ہے کہ جہاد کا مطلب ہے، مصلحانہ جنگ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان دنیا میں خدا کے خلیفہ ہیں۔ مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کی نیابت میں خدا کی حکومت دنیا میں قائم کرے۔ وہ خدا کی طرف سے لوگوں کو خدا کے احکام کا پابند بنائے۔ اُن کے نزدیک اس لڑائی کا نام جہاد ہے۔جہاد کا یہ تصور بلاشبہ بے اصل ہے۔ قرآن و سنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

مصلحانہ جنگ اپنے نتیجہ کے اعتبارسے صرف مفسدانہ جنگ ہے۔ اجتماعی زندگی میں پرامن اظہار خیال کا حق تو ہر ایک کو ہے لیکن طاقت کو استعمال کرکے اصلاح کرنے کا نظریہ بین اقوامی زندگی میں ناقابل قبول ہے۔ اجتماعی یا بین اقوامی زندگی میں کوئی گروہ اپنے لیے ایک ایسا حق نہیں لے سکتا جسے وہ دوسروں کو دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ اگر ایک گروہ اپنے لیے اصلاحی جنگ کا حق لینا چاہے تو یقینی طورپر اسے دوسروں کو بھی اصلاحی جنگ کا یہ حق دینا ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر گروہ خود ساختہ اصلاح کے نام پر دوسرے سے جنگ شروع کردے گا۔ اس کے نتیجہ میں اصلاح تونہ ہوگی البتہ اس کی وجہ سے ایک ایسا فساد برپا ہوگا جو کبھی ختم نہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی جائز صورت صرف ایک ہے، اور وہ دفاع ہے۔ اگر ایک قوم اپنی جغرافی حد سے تجاوز کرکے دوسری قوم کے اوپرکھلا حملہ کردے تو ایسی صورت میں زیر حملہ قوم کواپنے بچاؤ میں جوابی جنگ کا حق حاصل ہے۔ اس ایک صورت کے سوا کسی بھی دوسری صورت میں متشددانہ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔

یہ اجتماعی اصول اسلام میں بھی اسی طرح مسلّم ہے جس طرح سے وہ دوسرے نظاموں میں تسلیم کیاگیا ۔ اس اجتماعی اصول کے معاملہ میں اسلام اور غیر اسلام کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

اس سلسلہ میں ایک مسئلہ وہ ہے جو پچھلی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلا زمانہ بادشاہی زمانہ تھا۔ ساری دنیا میں ہر جگہ کچھ خاندان حکومت کرتے تھے۔ اُس زمانہ میں بادشاہ کا یہ حق سمجھا جاتا تھا کہ وہ قانون سے بالا تر ہے اور وہ جو چاہے کرے۔ اس بنا پر قدیم شاہی زمانہ میں ہر بادشاہ نے ایسے کام کیے جو اخلاقی یا قانونی اعتبار سے درست نہ تھے۔ قدیم زمانہ میں ہندستان کے مسلم بادشاہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومناتھ کے ہندو مندر کو ڈھایا اور اُس کے سونے کے ذخیرہ کو لوٹا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب نے بنارس کے ایک ہندو مندر کو ڈھایا اور اُسی جگہ مسجد تعمیر کی، وغیرہ۔

بادشاہوں کی طرف سے اس قسم کے واقعات قدیم زمانہ میں ہر ملک میں ہوئے۔ مگر وہ صرف قدیم تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ گئے، وہ بعدکے زمانہ میں دو قوموں کے درمیان مستقل نزاع کا سبب نہ بن سکے۔ صرف ہندستان میں ایسا ہوا کہ اس طرح کے واقعات یہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مستقل طورپر تلخی کا سبب بن گئے۔ اس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد بھی بار بار ہوئے۔ وہ قومی یکجہتی کا ماحول قائم کرنے کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ بن گئے۔

میرے نزدیک اس استثنائی صورت حال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلم علماء اور دانشوروں نے ہندستان کی مسلم حکومتوں کو اسلامی حکومت کا نام دے دیا۔ وہ اس کو اسلام کی تاریخ کا ایک باب سمجھنے لگے۔حالاں کہ ان حکومتوں کی حیثیت صرف کچھ مسلم خاندانوں کی حکومت (dynasty) کی تھی۔ اُن کو اُصولی اعتبار سے اسلام کی حکومت بتانا درست نہ تھا۔ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر ایسا ہوا کہ جو واقعات ایک مخصوص مسلم خاندان کی حکمرانی سے تعلق رکھتا تھا وہ اسلام کے نام کے ساتھ جُڑگیا۔

اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر یہ شدید غلطی ہوئی کہ مسلمان ان حکمرانوں کے دورِ حکومت کو اپنے لیے اسلامی فخر کے طور پر لینے لگے۔ وہ اُس کوغلبۂ اسلام کی علامت سمجھنے لگے۔دوسری طرف ہندوؤں میں وہ نظریہ پیدا ہوا جس کو تاریخی غلطیوں (historical wrongs) کی اصلاح کہا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ واضح طورپرباہمی تلخی کی صورت میں نکلا۔ مسلمانوں نے جب اس کو اپنا فخر بنایا تو شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ اُن کی مذہبی تاریخ کا ایک مقدّس حصہ بن گیا اور دوسری طرف ہندوؤں نے اُس کو تاریخی غلطی سمجھ کر اُس کی اصلاح کی کوشش شروع کردی۔

میرے نزدیک اس معاملہ میں دونوں فریق غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مسلمان کی غلطی یہ ہے کہ وہ اس تاریخ کو مذہبی حیثیت دینے کی بنا پر اُس پر نظر ثانی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور دوسری طرف ہندوؤں کی غلطی یہ ہے کہ وہ گذری ہوئی تاریخ کو بھولنے پر تیار نہیں۔ وہ ماضی کی غلطیوں کی تصحیح پر اصرار کررہے ہیں، خواہ اُس کے نتیجہ میں حال کے امکانات برباد ہوکر رہ جائیں۔

میرے نزدیک اس معاملہ میں دونوں فریقوں کو حقیقت پسند بننا چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پچھلے مسلم بادشاہوں کو اسلامی حاکم کا درجہ نہ دیں بلکہ اُن کی حکومت کو صرف ایک خاندان کی حکومت (dynasty) قرار دیں۔ وہ ان مسلم بادشاہوں کی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کارروائیوں کا انکار (disown) کریں، وہ کھلے طورپر اُن کی مذمت کریں، خواہ، وہ محمود غزنوی ہو یا اورنگ زیب یا کوئی اور۔

دوسری طرف ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ مضی ما مضی (gone is gone) کے اُصول پر ماضی کو بھلا دیں۔ وہ اس معاملہ میں جذباتی طریقہ کو چھوڑ کر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔ ہندوؤں کو جاننا چاہیے کہ تاریخی غلطیاں ہمیشہ ہوئی ہیں مگر کوئی بھی کبھی تاریخی غلطیوں کی تصحیح نہ کرسکا۔ تاریخی غلطیوں کی تصحیح کا نظریہ بلاشبہ غیر دانش مندانہ ہے۔ یہ ماضی کی تصحیح کے نام پر حال کی تخریب ہے۔ یہ فطرت کے اُصول کے خلاف ہے۔ ایسے لوگ ماضی کو پانے کے نام پر اپنے حال اور مستقبل کو بھی کھو دیتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہندستان کے حق میں یہ بات پوری طرح واقعہ بن گئی ہے۔ جن ملکوں نے اپنے ماضی کو بھُلا کر اپنے حال کو تعمیر کرنا چاہا، اُنہوں نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس کی ایک مثال جاپان ہے۔ جاپان نے امریکہ کی غلطیوں کی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان آج ایک اقتصادی سُپر پاور بنا ہوا ہے۔ دوسری مثال ہندستان کی ہے۔ ہندستان میں ماضی کی غلطیوں کی تصحیح کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان صرف ایک پچھڑا ہوا ملک بن کر رہ گیا۔

قومی ترقی کی لازمی شرط یہ ہے کہ قومی ترقی کے سوال کو اصل بنایا جائے اور بقیہ تمام چیزوں کو سیکنڈری حیثیت دے دی جائے۔ لوگوں میں یہ سوچا سمجھا ذہن موجود ہو کہ اصل اہمیت کی چیز یہ ہے کہ قومی ترقی کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ اس کے سوا جو جذباتی مسائل ہیں یا اور جو ذاتی مفروضات ہیں وہ اگر قومی ترقی کے عمل میں رکاوٹ ڈالے بغیر حاصل ہوتے ہوں تو ٹھیک، ورنہ وہ ہمیں منظور نہیں۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کی پیروی کرکے ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دی جاسکتی ہے، اس کے بغیر امن ممکن نہیں۔

مشہور قصہ ہے کہ ایک قاضی کے پاس ایک کیس آیا۔ ایک نوزائیدہ بچہ تھا اور دو عورتیں یہ دعویٰ کررہی تھیں کہ وہ اُس کی ماںہے اور اس بچہ کو اس کے حوالہ کردینا چاہیے۔ مگر دونوں میں سے کسی کے پاس بھی کوئی قانونی ثبوت موجود نہ تھا۔ یہ قاضی کے لیے ایک بڑا امتحان تھا۔ آخر کار اُس نے یہ حکم دیا کہ بچہ کے جسم کو بیچ سے کاٹ کر دو ٹکڑے کردیئے جائیں اور پھر اُس کا ایک ٹکڑا ایک عورت کو دیاجائے اور اُس کا دوسرا ٹکڑا دوسری عورت کو دیا جائے۔

قاضی نے جب اپنا یہ حکم سنایا تو جو عورت بچہ کی ماں ہونے کی فرضی دعویدار تھی اُس پراس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ مگر جو عورت بچہ کی حقیقی ماں تھی وہ چیخ اٹھی ۔ اُس نے کہا کہ بچہ کو مت کاٹو۔ اُس کو تم دوسری عورت کے حوالہ کردو۔ یہی محبت کا حقیقی معیار ہے۔ جن لوگوں کو ملک سے حقیقی محبت ہے اُنہیں چلّا کر کہنا چاہیے کہ ہم دیش کی تباہی کو دیکھ نہیں سکتے۔ پچھلی تاریخ میں جو کچھ ہوا اُس کو ہم بھلاتے ہیں تاکہ حال کے مواقع کو بھر پور طورپر استعمال کیا جاسکے اور ملک کا ایک نیا شاندار مستقبل پیدا کیا جاسکے۔

قومی زندگی میں امن اور اتحاد کا اصول صرف tolerationکی بنیاد پر ممکن ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ مختلف افراد اور مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات پیداہوں۔ فرق اور اختلاف زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ اس لیے فرقہ وارانہ زندگی میں اعتدال کا ماحول فرق اور اختلاف کو مٹا کر قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مقصد جب بھی حاصل ہوگا تحمل اور ٹالرنس کی بنیاد پر حاصل ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے کی کوشش کسی انسانی گروہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ فطرت کے عالم گیر قانون کے خلاف ہے۔ کوئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت سے لڑکر جیت سکے۔ اس لیے حقیقت پسندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں برداشت کے اصول کو اپنایا جائے نہ کہ ٹکراؤ کے اصول کو۔ اختلاف کو گوارا کرو تاکہ اتحاد قائم ہو۔ کیوں کہ اختلاف کو مٹا کر اتحاد قائم کرنے کا منصوبہ تو سرے سے ممکن ہی نہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom