پر امن نظریاتی اشاعت
قرآن کی سورہ الفرقان میں اہل حق کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ :وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ( 25:52) یعنی تم اُن کے اوپر جہاد کرو، بڑا جہاد، قرآن کے ذریعہ۔
جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ایک کتاب ہے، ایک نظریاتی کتاب۔ وہ کوئی تلوار نہیں۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ قرآن کے افکار کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ قرآن کے پیغام کو پُر امن انداز میں لوگوں کے درمیان عام کرو۔ قرآن کے نظریات کو مدلّل انداز میں بیان کرکے اُس کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بناؤ۔
اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں جس چیز کو جہاد کہا گیا ہے وہ پُر امن جدوجہد (peaceful struggle) ہے، اُس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد کا لفظ عربی زبان میں مبالغہ آمیز کوشش کے لیے بولا جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ محنت کرنا۔ کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی آخری کوشش صرف کردینا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پُرتشدد کوشش کے مقابلہ میں پُر امن کوشش زیادہ عظیم ہے۔ کوئی آدمی جب متشددانہ طریقِ کار اختیار کرے تو کوشش کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے۔ لیکن جب وہ پرامن طریقِ کار اختیار کرے تو اُس کا دائرہ کار لامحدودحد تک بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ متشددانہ طریقِ کار میں صرف تلوار یا گن کار آمد ہے لیکن پُر امن طریقِ کار میں ہر چیز آدمی کے لیے ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی ہے، حتیٰ کہ بند کمرہ میں استعمال ہونے والا ایک قلم بھی۔