ہائی جیکنگ ایک جرم

ہائی جیکنگ (ہوائی قذّافی) بلاشبہ ایک فعل حرام ہے۔ اس کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے، یقینی طورپر وہ شرعی اعتبار سے حرام اور انسانی اعتبار سے جرم قرار پائے گا۔ ہائی جیکنگ کو جائز ثابت کرنا صرف جرم کے اوپر سرکشی کا اضافہ ہے۔ ہائی جیکنگ ایک ایسا جرم ہے جس میں بیک وقت کئی سنگین جرائم شامل ہو جاتے ہیں — رہزنی (highway  robbery) ، یرغمال (hostage) بنانا، ناحق قتل کرنا، دھوکہ کی جنگ، کسی کے مال کو غصب کرنا اور اس کو نقصان پہنچانا۔

1۔  رہزنی کیا ہے، رہزنی یہ ہے کہ کسی آدمی کو غیر محفوظ (vulnerable) حالت میں پاکر اس پر حملہ کرنا اور اس کو جانی اور مالی نقصان پہنچانا۔ پہلے زمانہ میں برّی رہزنی  (highway robbery)کا رواج تھا۔ اس کے بعد بحری قذافی (piracy) کی جانے لگی۔ اب موجودہ زمانہ میں ہوائی قذّافی (hijacking) شروع ہوگئی ہے۔ رہزنی کی یہ تمام قسمیں اسلام میں یکساں طور پر حرام ہیں۔ جو فرد یا گروہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اس قسم کا فعل کرے وہ بلاشبہ سخت گناہ گار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے لیے اسی انجام کا خطرہ ہے جو کسی فعل حرام کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے مقدر ہے۔ الاّ یہ کہ وہ توبہ کرے اور علی الاعلان متعلقہ افراد سے اپنے جرم کی معافی مانگے۔ اسی کے ساتھ وہ اس نقصان کی تلافی کرے جو اس نے ہائی جیکنگ کے ذریعہ کسی کو پہنچایا ہے۔

2۔  یرغمال بنانا یہ ہے کہ اپنی کچھ مانگوں کے لیے موقع پا کر معصوم لوگوں کو پکڑنا اور پھر سودے بازی کرنا۔ یرغمال بنانے کا یہ رواج قدیم زمانہ میں بھی تھا لیکن موجودہ زمانہ میں اس نے اب باقاعدہ فن کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس قسم کا فعل بلاشبہ سخت گناہ بھی ہے اور بزدلی بھی۔ یہ بات اسلام میں سراسر حرام ہے کہ آپ کو کسی سے شکایت ہو اور آپ اس کا بدلہ کسی اور سے لیں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر کسی معصوم جان کو ستانا اسلام میں ہر گز جائز نہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے نام سے جو معاہدہ کیا تھا اس سے مزید ثابت ہوتا ہے کہ اگر فریق ثانی ہمارے کسی آدمی کو یرغمال بنا لے تب بھی ہمیں فریقِ ثانی کے آدمی کو یرغمال بنانا جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ معصوم افراد سے انتقام لینے کے ہم معنٰی ہے اور معصوم افراد پر ظلم کرکے اپنے انتقام کی آگ بجھانا بلاشبہ اسلامی شریعت میں جائز نہیں۔

3۔  جو لوگ ہائی جیکنگ کرتے ہیں وہ اپنے مجرمانہ مقصد کو پورا کرنے کے لیے اکثر بے قصور مسافروں کو قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔ اس قسم کاقتل بلاشبہ انتہائی سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص کسی ایک آدمی کو بھی ناحق قتل کرے، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کرڈالا (المائدہ،5:32) ۔اس اعلان خداوندی کے باوجود جو لوگ بے قصور مسافروں کو قتل کریں یا ان کو ستائیں ان کے دل بلاشبہ خدا کے خوف سے خالی ہیں۔ اور جس دل کے اندر خدا کا خوف نہ ہو وہ یقینی طورپر ایمان سے بھی خالی ہوگا۔

ہوائی جہاز میں جو مسافر سفر کررہے ہوتے ہیں، واضح طورپر وہ بے قصور ہوتے ہیں۔ ہائی جیکروں کے ساتھ ان کا کوئی بھی نزاعی معاملہ نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں ان کے سفر میں رکاوٹ ڈالنا، ان کو ستانا، یا ان کو قتل کرنا، یہ سب کا سب اسلام میں حرام ہے، حتٰی کہ اگر بالفرض کسی مسافر نے کوئی غلطی کی ہو تب بھی اس کی غلطی پر سزادینے کا اختیار صرف باقاعدہ عدالت کو ہے۔ کوئی بھی غیرعدالتی آدمی قصور وار کو بھی سزا دینے کا حق نہیں رکھتا۔ پھر بے قصور مسافروں کو سزا دینا تو اور بھی زیادہ غیراسلامی فعل قرار پائے گا۔

4۔  اسلام میں دھوکہ دینا مطلق طورپر حرام ہے، خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو۔ موجودہ زمانہ کی ہائی جیکنگ مکمل طورپر دھوکہ کا ایک فعل ہے۔ ہائی جیکنگ کرنے والے ہائی جیکنگ کے ہر اسٹیج پر لوگوں کے ساتھ دھوکہ کا معاملہ کرتے ہیں۔ فرضی پاسپورٹ بنوانا، جعلی کرنسی استعمال کرنا، ائرپورٹ پر عملہ کو دھوکہ دے کر خطرناک ہتھیار جہاز میں پہنچانا، متعلق افراد کو دھوکہ دے کر جہاز کے اندر داخل ہونا، وغیرہ۔ یہ سارا عمل جھوٹ اور دھوکہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اور جھوٹ اور دھوکہ اسلام میں انتہائی سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسلام میں صرف کھلے معاملہ کی اجازت دی گئی ہے۔ اسلام میں اس مجرمانہ کارروائی کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ لوگوں کو فریب دے کر اپنا مقصد حاصل کیا جائے۔ حتی کہ اگر ایک مسلم ملک کے تعلقات دوسرے ملک سے امن کی بنیاد پر قائم ہوں اور پھر مسلم ملک کسی وجہ سے اس ملک کے خلاف جنگ چھیڑنا چاہے تو مسلم ملک پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اپنے اس فیصلہ کا کھلا اعلان کرے اور یہ کہے کہ آج سے ہم اور تم بر سرِ جنگ ہیں (الانفال، 8:58)۔ در پردہ جنگ یا پراکسی وار (proxy war) اسلام میں قطعاً جائز نہیں۔

جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر اپنا مقصد حاصل کرنا انسانی نقطۂ نظر سے بھی ایک پست حرکت ہے۔ اور اسلامی نقطۂ نظر سے بھی وہ ایک گناہ عظیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من غشنا فلیس منا (صحيح مسلم حديث نمبر 101)۔ یعنی جو شخص دھوکہ کا معاملہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

5۔  ہائی جیکنگ میں جان اور مال دونوں کا نقصان شامل ہے۔ ایک طرف ایک پورا ہوائی جہاز ہے جس کی قیمت کروڑوں روپیہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں جہاز میں گھس کر یہ دھمکی دینا کہ ہماری مانگیں پوری کرو ورنہ ہم جہاز کو بم سے اڑا دیں گے، یہ مال کا غصب بھی ہے اور دوسرے کے مال کو ناحق تلف کرنا بھی۔ جہاز میں عام طورپر سیکڑوں آدمی سوار رہتے ہیں اور یہ سب بے قصور ہوتے ہیں اس لیے جہاز کو تباہ کرنے کا ہر منصوبہ سیکڑوں بے گناہ لوگوں پر ظلم اور قتل کے ہم معنیٰ ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کا ہر فعل خود ہائی جیکرس کے لیے بھی خود کشی کے اقدام کے برابر ہے جو خود بھی اتنی بری چیز ہے کہ اسلامی شریعت میں بتایا گیا ہے کہ جو آدمی جان بوجھ کر اپنے آپ کو مارے وہ حرام موت مرا۔ اور حرام موت سے بُری کوئی موت اسلام میں نہیں۔

ہائی جیکنگ کا خونیں ڈرامہ کرنے والے اپنے اس فعل کو اسلامی جہاد قرار دیتے ہیں۔ یہ توجیہہ بلاشبہ مجرمانہ حد تک غلط ہے۔ اس کے متعدد اسباب ہیں۔

اسلامی جہاد اللہ کے راستہ میں دفاعی طورپر کیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ لوگ جو نام نہاد جنگ لڑرہے ہیں وہ ملک اور مال کے لیے ہے۔ ملک اور مال کے لیے جو جنگ لڑی جائے وہ ہر گز جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہوسکتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ جہاد (بمعنیٰ قتال) صرف ایک قائم شدہ ریاست کا فعل ہے، نہ کہ عام افراد کا۔ موجودہ جنگ کی صورت یہ ہے کہ اس کو عام افراد چھیڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ عام افراد کو اسلامی نقطۂ نظر سے یہ حق ہی حاصل نہیں۔ عام افراد اگر جنگ چھیڑیں تو یہ ان کے لیے ایک فعل حرام کا ارتکاب ہوگا۔

ایک قائم شدہ ریاست جارحیت کی صورت میں دفاعی جنگ لڑسکتی ہے مگر ایسی دفاعی جنگ بھی اس وقت اسلامی جنگ ہوگی جب کہ وہ کھلے اعلان کے ساتھ لڑی جائے۔ اعلان کے بغیر کسی کے خلاف پراکسی وار چھیڑنا اور اس کو جھوٹ کے بل پر چلانا اسلام میں ہر گز جائز نہیں۔

اسلام میں حقوق کی دو قسمیں کی گئی ہیں—حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ سے مراد وہ ذمہ داریاں ہیں جو خدا کی نسبت سے بندے پر عائد ہوتی ہیں۔اگر کوئی بندہ حقوق اللہ کے معاملہ میں کوتاہی کرے تو اس کی تلافی کے لیے معافی مانگنا ہی کافی ہو جاتا ہے۔

مگر حقوق العباد کا معاملہ بے حد سنگین ہے۔ حقوق العباد میں غلطی کرنے کا معاملہ انسانوں سے ہوتا ہے۔ جو آدمی انسان کے معاملہ میں کوئی جرم کرے تو صرف خدا سے معافی مانگنا اس کی تلافی کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ خدا سے معافی مانگنے کے ساتھ  اس کے اوپر لازم ہے کہ وہ متعلق لوگوں سے بھی معافی مانگے اور اس نقصان کی تلافی کرے جو اس نے انہیں پہنچایا ہے۔

ہائی جیکنگ کا تعلق بلاشبہ حقوق العباد سے ہے۔ یہ انسان کے مقابلہ میں ظلم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں ہائی جیکروں پر لازم ہے کہ وہ ستم زدہ انسانوں سے باقاعدہ طورپر اس کی تلافی کریں۔ ورنہ وہ خدا کے نزدیک ناقابل معافی مجرم قرار پائیں گے، خواہ وہ بظاہر نماز روزہ کیوں نہ ادا کررہے ہوں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom