خود اپنے عمل کا نتیجہ
قرآن کی سورہ الشوریٰ میں کہا گیا ہے کہ: جو مصیبت بھی تمہارے اوپر پڑتی ہے وہ صرف تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے( 42:30)۔
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا اسباب و علل کے اصول پر قائم ہے۔ جیسے اسباب ویسا نتیجہ ۔ یہ آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ کسی آدمی پر جب بھی کوئی مصیبت پڑے تو اُس کو چاہیے کہ اُس کا سبب وہ خود اپنے اندر دریافت کرے، نہ کہ وہ اپنے سے باہر اس کا سبب تلاش کرنے لگے۔
زندگی کی یہ حقیقت جس آدمی کے ذہن میں بیٹھ جائے وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کسی کو اپنی مصیبت کا ذمہ دار بتاکر اُس کے خلاف تشددکا معاملہ کرنے لگے۔ اس کے بجائے وہ صرف یہ کرے گا کہ بے لاگ طورپر اپنی زندگی کاجائزہ لے گا۔ وہ خود اپنی غلطیوں کو دریافت کرے گا تاکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرکے وہ مصیبت کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ مصیبت کا حوالہ دے کر دوسرے کے خلاف کارروائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مریض اپنے مرض کا ذمہ دار اپنے پڑوسی کو بتا کر اُس سے لڑنے لگے۔
ایک شہر جہاں کا ٹریفک ضابطہ دائیں چلو (keep right) کے اصول پر قائم ہو، وہاں اگر کوئی شخص بائیں چلو (keep left) کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑانے لگے تو یقینی طورپر اُس کی گاڑی حادثہ کا شکار ہوجائے گی۔
یہ حادثہ اگر چہ بظاہر فریقِ ثانی کی گاڑی کے ٹکرانے سے پیش آیا ہوگا مگرآپ یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ فریقِ ثانی نے ٹکر مار کر آپ کو زخمی کردیا۔ اس کے برعکس صحیح طورپر آپ کو صرف یہ کہنا چاہیے کہ میں غلط رُخ پر چل رہا تھا اور فریقِ ثانی کی گاڑی صحیح رخ پر۔ اس لیے فریق ثانی کی گاڑی میری گاڑی سے ٹکرا گئی۔
یہی معاملہ زندگی کے دوسرے تمام پہلوؤں کا بھی ہے۔ آپ کو جب بھی اپنی زندگی میں کسی نقصان سے دوچار ہونا پڑے تو پیشگی طورپر یہ سمجھ لیجیے کہ جو کچھ ہوا وہ خود آپ کی غلطی کی بنا پر ہوا۔ یہی زندگی کے معاملات میں صحیح سوچ ہے۔ اگر آپ صحیح انداز میں سوچیں تو آپ اپنی اصلاح کرکے اپنے مستقبل کو بچالیں گے۔ اور اگر آپ اس کے برعکس یہ کریں کہ اپنی مصیبت کا الزام دوسروں کو دیتے رہیں تو آپ اپنے مستقبل کو بھی برباد کریں گے، اور آپ کا ماضی اور حال تو پہلے ہی برباد ہوچکا ہے۔