دشمن اور مُقاتِل کا فرق
قرآن کی سورہ فصلت میں ایک طرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک شخص اگر بظاہر تمہارا دشمن ہو تب بھی تم اس کے ساتھ احسن طریق پر معاملہ کرو، عین ممکن ہے کہ وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے (41:34)۔دوسری طرف قرآن کی سورہ الممتحنہ میں ارشاد ہوا ہے کہ جن لوگوں نے تم سے قتال نہیں کیا ان سے تم کو بھلائی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ مگر اللہ اس سے روکتا ہے کہ تم ان لوگوں سے بھلائی کے ساتھ معاملہ کرو جو تمہارے ساتھ قتال کر رہے ہیں(60:8)۔
ان دونوں آیتوں کا تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن عدو(enemy) اور مُقاتل (combatant) کے درمیان فرق کرتا ہے۔ قرآن کا حکم یہ ہے کہ بظاہر اگر کوئی شخص یا گروہ تمہارا دشمن ہو تب بھی تم کواس کے ساتھ اچھا تعلق قائم رکھنا چاہیے تا کہ دعوت کا عمل معتدل انداز میں جاری رہے۔ ظاہری دشمنی کو اختلاط (interaction) میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے کیوں کہ اختلاط سے دعوت کا عمل جاری رہتا ہے اور دعوت کا عمل دشمن کو بھی دوست بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ البتہ مُحارب یا مُقاتل (combatant) کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عملاً اور یک طرفہ طورپر اہل ایمان کے خلاف جنگ چھیڑ دیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ہنگامی اصول یا جنگی اخلاقیات کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ حتی کہ ان کے ساتھ اس وقت تک قطع تعلق بھی کیا جاسکتا ہے جب تک وہ جنگ سے باز نہ آئیں۔
یہ ایک بے حد اہم فرق ہے جس کو عملی زندگی میں اختیار کرنا ضروری ہے۔ اہل ایمان اگر اس فرق کو نہ سمجھیں تو وہ دشمن سے بھی مقاتل جیسا معاملہ کرنے لگیں گے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام کے دعوتی مصالح مجروح ہوں گے اور دعوت و تبلیغ کا مطلوب عمل رک جائے گا۔ صحیح یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ بالفعل مسلح جنگ چھیڑدے اس کے مقابلہ میں تو سخت احتیاط کا برتاؤ کیاجائے گا۔ حتی کہ معتدل تعلق سے بھی پرہیز کیاجائے گا۔ کیوں کہ یہ اندیشہ ہے کہ اس کے ذریعہ مُقاتل فریق اہل ایمان کے جنگی راز معلوم کرلے۔ مگر جہاں تک عام انسان کا تعلق ہے تو ظاہری دوستی یا ظاہری دشمنی کا لحاظ کیے بغیر ہر ایک سے یکساں انسانی تعلق قائم رکھا جائے گا۔ تا کہ اسلام کا دعوتی عمل غیر منقطع طورپر جاری رہے، وہ کسی حال میں رکنے نہ پائے۔
اسلام کی یہ واضح تعلیم ہے کہ حقیقی جنگ (jenuine war) میں بھی مقاتل اور غیر مقاتل کے درمیان فرق کیا جائے۔ یعنی مقاتل پر وار کیا جائے لیکن غیر مقاتل پر ہر گز وار نہ کیا جائے۔ ایسی حالت میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اُصول قدیم زمانہ کی جنگ میں ممکن تھا۔ موجودہ زمانہ میں جنگ گولہ بارود سے لڑی جاتی ہے اور گولہ بارود کی جنگ میں مقاتل اور غیر مقاتل کی تفریق ممکن نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ جنگی اقدام کی صورت میں غیرمقاتل بھی ہلاک ہو جائیں گے تو جنگ ہی نہیں کی جائے گی۔ جنگ نہ کرنا اور جنگ کرکے غیر مقاتل کو ہلاک کرنا— دونوں میں سے پہلی صورت کمتر برائی (lesser evil) کی ہے اور دوسری صورت شدید تر برائی (greater evil) کی۔ اور جب انتخاب کمتر برائی اور شدید تر بُرائی کے درمیان ہو تو یقینی طورپر کمتر بُرائی کو لیا جائے گا اور شدید تر برائی کو چھوڑ دیا جائے گا۔ یہی عقل کا تقاضا بھی ہے اور یہی شریعت کا تقاضا بھی۔
موجودہ زمانہ میں اگر ایک طرف غیر موافق صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ جنگ چھڑنے کی صورت میں غیر مقاتل کی ہلاکت سے پرہیز عملاً ممکن نہیں۔ تو اسی کے ساتھ خودموجودہ ترقیوں کے نتیجہ میں ایک موافق صورت حال بھی بہت بڑے پیمانہ پر پیدا ہوئی ہے۔ وہ ہے جدید تعمیری امکانات۔
یہ جدید تعمیری امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ جنگ میں جیتنا یا ہارنا دونوں اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ایک گروہ جنگ جیت کر بھی تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسرا گروہ جنگ ہار کر بھی ایسے پُر امن ذرائع پاسکتا ہے جن کواستعمال کرکے وہ کسی لڑائی کے بغیر ہی اعلیٰ کامیابی حاصل کرلے۔
اس معاملہ کی ایک مثال جاپان کی جدید تاریخ میں ملتی ہے۔ جاپان کودوسری عالمی جنگ میں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر اُس نے اپنی تعمیر نو کے لیے دوبارہ جنگی منصوبہ نہیں بنایا۔ بلکہ عملاً مغلوبیت کو قبول کرتے ہوئے پُر امن دائرہ میں تعمیر نو کی جدوجہد شروع کردی۔ یہ منصوبہ اتنا کامیاب ہوا کہ پچیس سال میں جاپان کی تاریخ بدل گئی۔ جاپان کی یہ کامیابی جدید ذرائع کی بنا پر ممکن ہو سکی۔
اس معاملہ کی ایک برعکس مثال فلسطین میں ملتی ہے۔ 1948 کے بعد فلسطینی مسلمانوں کے لیے جو صورت حال پیدا ہوئی اُس کو اُنہوں نے اسرائیل کے خلاف متشددانہ کارروائی کے لیے کافی سمجھ لیا۔ مگر نتیجہ کیا نکلا۔ 1948 میں فلسطینی مسلمانوں کے پاس فلسطین کا آدھے سے زیادہ حصہ ملا ہوا تھا جس میں یروشلم بھی پورا کا پورا شامل تھا۔ مگر متشددانہ عمل کا انتخاب لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج فلسطینیوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔ یکساں مدت میں فلسطینیوں کو متشددانہ عمل کے نتیجہ میں تباہی ملی اور ٹھیک اُسی مدت میں جاپان کا حال یہ ہوا کہ وہ اقتصادی اعتبار سے عالمی سُپر پاور بن گیا۔