قتال برائے ختم فتنہ
قرآن میں رسول اوراصحاب رسول کو جو احکام دیے گئے، ان میں سے ایک حکم یہ تھا: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(8:39)۔ یعنی اور ان سے سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ دیکھتا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
اس آیت کے دو حصے ہیں۔ یہاں ایک ہی بات کو پہلے منفی اور اس کے بعد مثبت انداز میں بیان کیا گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ کی حالت کو اس طرح ختم کردو کہ پوری طرح غیر فتنہ کی حالت قائم ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کی پیدا کردہ مصنوعی حالت نہ رہے بلکہ خدا کی مقرر کی ہوئی فطری حالت واپس آجائے۔
اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر ہے جو قدیم زمانہ میں ساری دنیا میں رائج تھا۔ قدیم زمانہ میں ہر جگہ بادشاہت کا رواج تھا۔ اس زمانہ میں زندگی کے صرف دو بڑے شعبے ـتھے—اقتدار اور زمین۔ یہ دونوں شعبے مکمل طورپر بادشاہ کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ اس طرح پوری انسانی زندگی عملاً بادشاہ کے قبضہ میں رہتی تھی۔ حتی کہ لوگوں کا مذہب بھی وہی ہوتا تھا جو بادشاہ کا مذہب ہوتا تھا۔ اس زمانہ کی حالت کو ایک قدیم عربی مقولہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: النَّاسُ عَلَى دِينِ مُلُوكِهِمْ (لوگ اپنے بادشاہوں کے مذہب پر ہوتے ہیں)۔
قدیم زمانہ میں جبر کی یہ صورتِ حال خدا کی فطری اسکیم کے خلاف تھی۔ اس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں ایک قسم کی سیاسی مرکزیت (political centralization) قائم ہوگئی تھی۔ اس نظام کے اندر ہر کام صرف بادشاہ کی اجازت کے تحت ہوسکتا تھا۔ عام افراد کوئی بھی کام آزادانہ طورپر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تھے۔ یہ تقریباً وہی صورتِ حال تھی جس کا ایک نمونہ کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کے تحت قائم شدہ سابق سوویت یونین میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اللہ کو مطلوب تھا کہ سیاسی جبر کے اس غیر فطری نظام کو ختم کردیا جائے اور زندگی کا پورا نظام اس حالتِ فطری پر قائم ہو جائے جواللہ نے امتحان کی مصلحت کے تحت انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ یعنی سیاسی اقتدار کی اجازت کے بغیر ہر آدمی آزادانہ طور پر وہ کام کر سکے جس کو وہ کرنا چاہتا ہے۔
اسلام کے دور اول میں ملوکیت کو ختم کرکے خلافت کا قیام اسی عمل کا آغاز تھا۔ یہ نظام سب سے پہلے عرب میں قائم کیا گیا۔ اس وقت کی دنیا میں دو بڑی سلطنتیں —بازنطینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر قائم تھیں۔ ان سلطنتوں کے لیے مذکورہ قسم کا اصلاحی پروگرام ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس اصلاحی تحریک کو کچلنا چاہا۔ اس کے نتیجہ میں اصحابِ رسول کا ان سلطنتوں کے ساـتھ زبردست مقابلہ پیش آیا۔ اللہ کی مدد سے اس مقابلہ میں اصحابِ رسول کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس جبری نظام کا خاتمہ ہوگیا جس کو فرانسیسی مورخ ہنری پرین(Henry Pyrrene) نے مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔
ہزاروں سال سے قائم شدہ جبری نظام کو ختم کرکے آزادی کا نظام قائم کرنا ایک انتہائی انقلابی واقعہ تھا۔ یہ واقعہ اپنے پہلے ہی دور میں مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اللہ کی مدد سے ساتویں صدی عیسوی میں اس قدیم جبری نظام کے تاریخی تسلسل کو توڑ دیا۔ اس کے بعد یہ تبدیلی ایک عمل(process) کے روپ میں انسانی تاریخ میں داخل ہوگئی۔ یہ عمل مختلف قسم کے فطری نشیب و فراز کے ساتھ مسلسل جاری رہا یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی عیسوی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔
عدم ترکیز (de-centralization) کا یہ واقعہ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں پیش آگیا۔ اب سیاسی اقتدار محدود ہو کر صرف انتظامیہ (administration) کی حیثیت میں باقی رہا۔ اب سیاسی ادارہ کا دخل زندگی کے ایک فیصد حصہ تک محدود ہوگیا۔ اور زندگی کے بقیہ ننانوے شعبے اس طرح آزاد ہوگئے کہ ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق، ان کو اپنے لیے استعمال کر سکے۔
انسانی زندگی کے نظام میں یہ عظیم تبدیلی عین اسلام کے حق میں تھی۔ اب (دوسروں کی طرح) اہل اسلام کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ سیاسی معنوں میں خواہ وہ حکمراں ہوں یا نہ ہوں، زندگی کی تعمیر و تشکیل میں وہ اپنا ہر منصوبہ کسی رکاوٹ کے بغیر چلا سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تبدیلی نے زندگی کے نظام کو بادشاہت کے دور سے نکال کر اداروں (institutions) کے دور میں پہنچا دیا۔
اب اہل اسلام کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ہر قسم کے ادارے قائم کر کے زندگی کے تمام شعبوں پر قابض ہو سکیں۔ حتی کہ خود سیاسی ادارہ کو بھی بالواسطہ انداز میں اپنے زیر اثر کرلیں۔
مذکورہ تبدیلی کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اہل اسلام بڑے پیمانہ پر ہر قسم کے آزادانہ ادارے قائم کریں، اور اداروں کے ذریعہ— معاشرہ میں وہ نفوذ حاصل کرلیں جو پہلے صرف سیاسی اقتدار کے ذریعہ ممکن ہوا کرتا تھا۔ مثلاً تعلیمی اداروں کے ذریعہ نئی نسلوں کی تربیت، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عمومی فکری فضا بنانا، کتابوں کے ذریعہ اپنے افکار کی اشاعت، تحقیقی اداروں کے ذریعہ اجتہاد کا عمل جاری رکھنا، مساجد اور مدارس کے ذریعہ اپنے مذہب کی حفاظت، صنعتی اداروں کے ذریعہ مالیات کا حصول، مواصلات کے ذریعہ اپنے مقاصد کی عالمی تنظیم، مختلف قسم کے این جی او(NGOs) کے ذریعہ اپنے مذہبی اور ثقافتی امور کی تنظیم، وغیرہ۔
موجودہ زمانہ میں جن قوموں نے تبدیلی کے اس راز کو سمجھ لیا ہے وہ بظاہر سیاسی اقتدار کی کرسی پر نہ ہوتے ہوئے بھی ہر قسم کی کامیابیاں حاصل کیے ہوئے ہیں۔ کسی گروہ نے ملک کے اندر اپنا تعلیمی ایمپائر بنا لیا ہے اور کسی نے صنعتی ایمپائر۔ کسی نے اپنا اشاعتی ایمپائر بنا لیا ہے اور کسی نے مواصلاتی ایمپائر۔ کسی نے اپنا مالیاتی ایمپائر بنا لیا ہے اور کسی نے معالجاتی ایمپائر۔ اس غیر ریاستی ایمپائر کی آخری مثال کمپیوٹر ایمپائر ہے جس نے لوگوں کو موقع دیا ہے کہ وہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین اقوامی سطح پر پورے نظام زندگی کو اپنے کنٹرول میں لے سکیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کی آیت ( وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ) کاایک اہم پہلو یہی زمانی تبدیلی ہے۔ اس تبدیلی نے سیاسی اقتدار کو گھٹا کر اب اس کو صرف ایک قسم کا سیاسی دردِ سر (political headache) بنا دیا ہے۔ اب اہل اسلام کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے جنگ کریں۔ سیاسی اقتدار، خواہ جس کسی کے قبضہ میں ہو، وہ ہر حال میں ایسا کرسکتے ہیں کہ غیر سیاسی ادارے قائم کرکے اپنے تمام مطلوب فائدے حاصل کرلیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہلِ اسلام سیاست سے دست بردار ہو جائیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اداروں اور تنظیموں کے ذریعہ ملنے والے فوائد کو حاصل کرتے ہوئے وہ محدود دائرہ میں پُر امن سیاسی عمل کا طریقہ اپنا ئیں۔ وہ سیاسی ہنگامہ آرائی سے مکمل پر ہیز کرتے ہوئے ممکن دائرہ میں اپنا خاموش سیاسی سفر جاری رکھیں، یہاں تک کہ اللہ ان کے لیے وہ مواقع کھول دے جو انہیں سیاست کے ادارہ تک بھی پہنچا دے۔