فطرت کا سبق
دریا کا سامنا چٹان سے ہو تو وہ اپنا راستہ بدل کر آگے بڑھ جاتا ہے مگر نادان انسان چاہتا ہے کہ وہ چٹان کو توڑ کر اپنا راستہ بنائے، خواہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ اس کا سفر ہی ہمیشہ کے لیے رک جائے۔
کشمیر میں انڈیا کے خلاف مسلّح تحریک اکتوبر 1989 میں شروع ہوئی۔ اس سے صرف ایک مہینہ پہلے میں نے کشمیر کا سفر کیا تھا۔وہاں سری نگر کے ٹیگور ہال میں میرا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ، اس قیام کے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کا سفرنامہ میں نے اسی وقت لکھا تھا مگر وہ کسی وجہ سے الرسالہ میں شائع نہ ہوسکا۔
ایک دن میں کچھ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ سری نگر کے باہر کھلی وادی میں گیا۔ ہر طرف فطرت کے خوبصورت مناظر تھے۔ پہاڑ کے اوپر سے پانی کے چشمے بہتے ہوئے میدان میں آرہے تھے۔ کشمیری مسلمانوں کو لے کر میں ایک چشمہ کے پاس بیٹھ گیا۔ وہاں یہ منظر تھا کہ چشمہ کا پانی بہتا ہوا ایک جگہ پہنچتا ہے جہاں اس کے سامنے ایک پتھر ہے۔ پانی یہ نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کرے۔ اس کے برعکس وہ پتھر کے دائیں اور بائیں سے مُڑ کر آگے نکل جاتا ہے اور اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
میں نے کشمیری مسلمانوں سے کہا کہ اس کو دیکھیے، یہ آپ کے نام قدرت کا ایک پیغام ہے۔ اس فطری واقعہ کے ذریعہ آپ کو یہ خاموش پیغام دیا جارہا ہے کہ تمہاری زندگی کے سفر میں کوئی رکاوٹ کی چیز آجائے تو تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ رکا وٹ سے ٹکرا جاؤ، اور رکاوٹ کی چٹان کو توڑ کر اپنے لیے سیدھا راستہ بناؤ۔ اس کے بجائے تم کو یہ کرنا چاہیے کہ رکاوٹ سے اعراض کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھو۔
یہی زندگی میں کامیابی کا راز ہے۔ فرد کا معاملہ ہو یا کسی قوم کا معاملہ، ہر ایک کے لیے تعمیر و ترقی کی واحد تدبیر یہ ہے کہ وہ راستہ کے پتھروں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھے، وہ مسائل سے اعراض کرے اور مواقع کو استعمال کرکے اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔
جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں کشمیر میں انڈیا کی فوجی یا سیاسی موجودگی کو کشمیریوں کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں سمجھتا۔ موجودہ جمہوری زمانہ میں سیاست صرف ایک دردِ سر ہے۔ اور فوج صرف سرحدوں کی چوکیدار۔ 1989 سے پہلے انڈیا کی فوج کشمیر کی سرحدوں پر رہتی تھی، وہ کشمیر کی بستیوں میں داخل نہیں ہوئی تھی۔مگر جب اکتوبر 1989 میں کشمیری تحریک کے لوگوں نے اسلحہ اٹھایا اور تشدد کا طریقہ اختیار کیا تو اس وقت انڈیا کی فوج اس سے مقابلہ کے لیے بستیوں میں داخل ہوئی۔ کیوں کہ جنگجو لوگ بستیوں میں رہ کر اپنی مسلح کارروائیاں کرتے تھے۔
تاہم بالفرض اگر کشمیری مسلمان ہندستانی فوج کی کشمیر میں موجودگی کو اپنے لیے راستہ کا پتھر سمجھیں تب بھی ان کے لیے کامیابی اور ترقی کا راز وہی ہے جو فطرت کی زبان سے انہیں بتایا جارہا ہے۔یعنی— مسائل کو نظر انداز کرواور مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problems, avail the opportunities.
یہ کوئی مجبورانہ اصول نہیں جس کا تعلق صرف موجودہ کشمیر سے ہو۔ یہ ایک عالمی اصول ہے۔ اس کا تعلق ہر انسانی آبادی سے ہے۔ مزید یہ کہ زندگی کا یہی اصول فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی، یہی اصول مسلم ملک کے لیے بھی ہے اور غیر مسلم ملک کے لیے بھی۔