ایک انسان کا قتل ساری دنیا کا قتل
قرآن کی سورہ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا(5:32) ۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو توگویا اُس نے سارے آدمیوں کو قتل کرڈالا۔
قتل ایک انتہائی بھیانک عمل ہے۔ کسی فرد کو قتل کرنا صرف اُس وقت جائز ہے جب کہ وہ سماجی امن کے لیے ناقابلِ علاج خطرہ بن گیا ہو۔ حقیقی وجہ جواز کے بغیر کسی ایک انسان کو قتل کرنابھی سارے انسانوں کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ اس سے احترام جان کی روایت ٹوٹتی ہے۔ ایک انسان کو ناحق قتل کرنا بظاہر ایک آسان فعل دکھائی دینے لگتا ہے۔
شراب کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ: مااسکرکثیرہ فقلیلہ حرام (سنن ابن ماجه، حديث نمبر 3681)۔ یعنی جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ کرے اس چیز کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ یہی معاملہ قتل کا بھی ہے۔ بہت سے انسانوں کو قتل کرنا جتنا بھیانک ہے اُتنا ہی بھیانک ایک انسان کو قتل کرنا بھی ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف ڈگری کا ہے، نوعیت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں امن وسلامتی کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ اگر کسی سماج میں ایک شخص کو قتل کردیا جائے تو پورا کا پورا سماج اُس پر تڑپ اٹھے۔ سماج میں دوبارہ امن وسلامتی کی حالت کو قائم کرنے کے لیے اس اہتمام کے ساتھ کام کیا جائے جیسے کہ کسی نے ایک فرد کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ اُس نے پوری انسانیت پر حملہ کردیا ہے۔