حق پر صبر کے ساتھ جمنا
قرآن کی سورہ العصر میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو گھاٹے سے بچتے ہیں اور کامیاب زندگی حاصل کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (103:3) یعنی وہ لوگ جنہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
جب بھی کوئی آدمی سچائی کے راستہ پر قائم ہوتا ہے یا لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتا ہے تو ہمیشہ ایساہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اُس کے مخالف بن جاتے ہیں۔ اُس کو لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے وقت میں حق پرست آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کرے، وہ پیش آنے والی مشکلات کو اپنے اوپر سہے، وہ اُن کودوسروں کے اوپر انڈیلنے کی کوشش نہ کرے۔
صبر غیر جارحانہ طریقہ کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق پرست آدمی کو چاہیے کہ وہ تشدد کے مقابلہ میں جوابی تشدد نہ کرے۔ وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو پُر امن طریقِ کار کا پابند بنائے۔ اسی روش کا دوسرا نام صبر ہے۔
حق اور تشدد دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جو آدمی حق کو لینا چاہے تو اُس کو تشدد کو چھوڑنا پڑے گا۔ تشدد، خواہ کسی بھی عذر کی بنا پر استعمال کیا جائے، وہ تشدد ہے۔ ہر تشدد یکساں طورپر تباہ کُن ہے۔ کوئی خوب صورت عذر تشدد کو اُس کے تباہ کن اثرات سے بچا نہیں سکتا۔
حق کے حصول کے نام پر تشدد کرنا خود حق کی نفی ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر تشدد کریں وہ اپنے بارے میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُن کا کیس حق کا کیس نہیں۔ حق پسند آدمی کبھی تشدد پسند نہیں ہوسکتا۔ جو آدمی تشدد کو پسند کرے وہ یقینی طورپر حق پسند نہیں، خواہ وہ بطور خود اپنے آپ کو حق کا چیمپین کیوں نہ سمجھتا ہو۔