کرنے کا کام
پچھلے دو سو سال کے اعتبار سے کشمیر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو وہ تین بڑے دوروں سے گزرتے ہوئے دکھائی دے گی۔ پہلے دو رمیں کشمیر کے لوگ صوفیوں سے متاثر ہوئے۔ کشمیر میں صوفیوں کا آنا کشمیریوں کے لیے اس اعتبار سے مفید ثابت ہوا کہ ان کے ذریعہ سے کشمیریوں کو اسلام کا تحفہ ملا۔ کشمیریوں کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگئی۔
صوفیا نے کشمیریوں کو مذہبی اعتبار سے اسلام تو دیا مگر وہ کشمیریوں کو وسیع تر معنیٰ میں زندگی کا کوئی مشن نہ دے سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیریوں کے لیے اسلام زیادہ تر کلچر کے ہم معنیٰ بن کر رہ گیا۔ وسیع تر معنوں میں انھیں وہ شعور اور وہ پروگرام نہیں ملا جو کشمیریوں کی پوری زندگی کو ایک جامع نشانہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کشمیر کے بیشتر لوگوں کی زندگی بزرگوں کی قبروں یا درگاہوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ مخصوص قسم کے اوراد ووظائف کو وہ اتنے اہتمام کے ساــتھ پڑھتے ہیں جیسے کہ وہی سارا اسلام ہو۔ اس درگاہی اسلام یا کلچرل اسلام کا یہ نقصان ہوا کہ کشمیریوں میں وہ شعور ترقی نہ کرسکا جو وسیع تر معنی میں ان کے اندر صحیح اور غلط کی تمیز پیدا کرے۔ اسی بے شعوری کایہ نتیجہ ہوا کہ وہ بار بار ایسی منفی سیاست میں ملوث ہوتے رہے جس کا کوئی حقیقی تعلق اسلام سے نہ تھا۔ حتی کہ دنیوی اعتبار سے بھی اس کاکوئی فائدہ کشمیریوں کو ملنے والا نہ تھا۔
اسلام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو ایک روحانی مرکز دے، وہ آدمی کو خدا کی عبادت کے طریقے بتائے، وہ آدمی کو ایک ربانی کلچر عطا کرے ۔جہاں تک میرا اندازہ ہے، کشمیری لوگ اس پہلو سے تو اسلام سے آشنا ہوئے مگر ایک اور پہلو سے وہ بڑی حد تک اسلام کے فوائد سے بے بہرہ رہے۔
یہ دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تعمیرِ ذہن کہا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کی تعلیم و تربیت اس نہج پر نہ ہوسکی جو ان کے اندر صحیح اسلامی شعور پیدا کرے۔ جو انہیں سوچنے کے وہ طریقے بتائے جس کی روشنی میں وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام کے مطابق فیصلہ لے سکیں۔ یہ کہنا شاید درست ہوگا کہ کشمیریوں کو مذہبی اعتبار سے تو اسلام ملا مگر شعوری انقلاب کے اعتبار سے وہ بڑی حد تک اسلام سے اپنا حصہ نہ پاسکے۔
اس سلسلہ کا پہلا واقعہ وہ ہے جب کہ کچھ لیڈروں کے نعرہ پر کشمیری لوگ سابق ڈوگرہ راج کے خلاف متحرک ہوئے۔ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک جذباتی ہنگامہ آرائی تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر کامیاب ہونے کے باوجود کشمیریوں کے مستقبل کی تعمیر میں اس تحریک کا کوئی حصہ نہیں۔ ڈوگرہ راج کے خلاف یہ تحریک زیادہ تر کچھ لیڈروں کے سیاسی حوصلہ کا اظہار تھی، نہ کہ حقیقی معنوں میں اسلامی شعور کا نتیجہ۔
1947 کے بعد کشمیریوں کے درمیان تحریکوں کا نیا دور شروع ہوا۔ اس دور میں کشمیر کے عوام دو بڑی تحریکوں سے متاثر ہوئے۔ ایک وہ جو سیکولرزم کے نام پر اٹھی اور دوسری وہ جو اسلام کے نام پر اٹھی۔یہ دونوں ہی تحریکیں دوبارہ کچھ لیڈروں کے سیاسی عزائم کی پیداوار تھیں، وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شعور کے تحت پیدا نہیں ہوئیں۔
سیکولرلیڈروں نے 1947 کے بعد آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کے نام پر اپنی تحریکیں چلائیں۔ ان تحریکوں کا یہ فائدہ تو ہوا کہ کچھ لیڈروں کو شہرت اور مادی فائدے حاصل ہوئے مگر کشمیری عوام کے لیے وہ ایک ایسے نشانہ کی طرف دوڑنے کے ہم معنیٰ تھی جس کی کوئی منزل نہیں۔ جس کا آغاز تو ہے مگر اس کا کوئی اختتام نہیں۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے اسلامی کشمیر اور نظام مصطفی کے نام پر اپنی تحریک چلائی۔ یہ لوگ بظاہر اسلام کا نام لیتے تھے مگر ان کے پاس خوش فہمیوں اور جذباتیت کے سوا کوئی اور سرمایہ نہ تھا۔ وہ اپنے رومانی جذبات کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور دوسروں کو دوڑا رہے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ اسلام کی منزل کی طرف جارہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کی تحریک اسلام کے لیے تو درکنار، خود دنیا کے اعتبار سے بھی کوئی واقعی فائدہ کشمیریوں کو دینے والی نہ تھی۔یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے۔ یہاں جذباتی سیاست کے ذریعہ کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنا ممکن نہیں۔
ان تحریکوں کا بے نتیجہ ہونے ہی کا یہ انجام ہے کہ کشمیری تحریک 1989 کے بعد تشدد کی راہ پر چل پڑی۔ آخری دور میں تشدد کی جو تباہ کن تحریک کشمیریوں کے درمیان ابھری وہ در اصل کشمیریوں کی مایوسانہ نفسیات کا نتیجہ تھی۔ پہلے وہ اپنے نادان لیڈروں کی پیروی میں بے نتیجہ راہوں کی طرف دوڑے اور جب فطرت کے قانون کے تحت ان کی تحریکوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیںآیا تو مایوسی اور جھنجلاہٹ کا شکار ہو کر انہوں نے مسلّح جدوجہد شروع کر دی۔
اہل کشمیر کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی کا از سرِ نواندازہ (reassessment) کریں۔ وہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے اپنے مستقبل کی تعمیر کا نیا منصوبہ بنائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیری لوگ پہلا موقع (first chance) کھوچکے ہیں۔ اب ان کے لیے ممکن صورت صرف یہ ہے کہ وہ دوسرے موقع (second chance) کو شعوری طورپر سمجھیں اور دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اس کو اپنے حق میں استعمال کریں۔
کشمیریوں کے لیے اپنی زندگی کی تعمیر کا نیا پروگرام تین نکات پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ وہ تین نکات یہ ہیں—تعلیم، اقتصادیات، دعوت۔
کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ سیاست اور ہتھیار سے مکمل طورپر بے تعلق ہوجائیں۔ وہ اپنی پوری نسل کو تعلیم کے راستہ پر لگا دیں۔ جموں و کشمیر کے پورے علاقہ میں بڑے پیمانہ پر اسکول اور مدرسے کھولے جائیں۔ کم ازکم 25 سال تک وہ یہ کریں کہ اپنے بچوں کو ہر دوسری سرگرمی سے ہٹا کر صرف تعلیم کے راستہ پر لگادیں۔
دوسرا میدان اقتصادیات کا ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست میں تجارت اور صنعت کے غیرمعمولی مواقع موجود ہیں۔ کشمیری مسلمانوں نے ابھی تک ان مواقع سے بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ وہ نئے ذہن کے تحت پوری طرح یکسو ہو کر تجارت اور صنعت کی طرف متوجہ ہو جائیں۔
تیسرا میدان دعوت کا ہے۔ دعوت سے میری مراد اسلام کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچاناہے۔ اس اعتبار سے کشمیریوں کے لیے دو بہت بڑے میدان کھلے ہوئے ہیں۔ ایک وہ غیرمسلم لوگ جو جموں و کشمیر میں بسے ہوئے ہیں اور وہاں کے ریاستی باشندہ ہیں۔ دوسرے وہ غیرمسلم لوگ جو سیاح کے طورپر کشمیر میں آتے ہیں۔
کشمیر میں اگر امن قائم ہوجائے تو وہاں سیاحت کا بہت بڑا میدان کھل جائے گا۔ یہ سیاحت ایک اعتبار سے انڈسٹری ہے اور دوسرے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ مدعوخود داعی کے پاس آگیا۔ یہ سیاحتی امکان اتنا بڑا ہے کہ اگر کشمیر کے لوگ اس کو درست طورپر استعمال کریں تو وہی ان کی دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کے لیے کافی ہو جائے۔