اختلاف کی حد
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف یہ فرمایا کہ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ، أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ اَمِيْرٍ جَائِرٍ(سنن الترمذي، حديث نمبر 2174، سنن ابو داؤد، حديث نمبر 4344؛ سنن ابن ماجه، حديث نمبر 4011) یعنی ظالم حکمراں کے سامنے حق و عدل کی بات کہنا افضل جہاد ہے۔
دوسری طرف حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ (صحيح البخاري، حديث نمبر 7143؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 1849) یعنی جو شخص اپنے حاکم میں ایسی چیز دیکھے جو اُس کو پسند نہ ہو تو وہ اُس پر صبر کرے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُك َ(صحيح مسلم، حديث نمبر 1847) یعنی تم اپنے حاکم کی بات سُنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ تمہاری پیٹھ پر کوڑا مارا جائے اور تمہارا مال چھین لیا جائے۔
ان حدیثوں میں بظاہر دو قسم کے احکام ہیں۔ ایک طرف یہ حکم ہے کہ تم اپنے حاکم میں کوئی غلط بات دیکھو تو کھُلے طورپر اُس کااعلان کرو۔ دوسری طرف حدیث یہ بتاتی ہے کہ امیر کے اندر تمہیں کوئی غلط بات دکھائی دے تو اُس پر صبرکرو، اگر وہ تمہارے اوپر ظلم کرے تب بھی تم اُس کو برداشت کرو۔
یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے جس سے دو چیزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ ہے، اعلان اور اقدام کا فرق۔ یہ ایک مطلوب بات ہے کہ آدمی حکمراں کے اندر کوئی غلط بات دیکھے تو وہ نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میں اُس کا اعلان کرے۔ مگر جہاں تک عملی اقدام کا تعلق ہے تو آدمی کو اُس سے مکمل طورپر باز رہنا چاہیے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ نصیحت اور ٹکراؤ کی سیاست میں فرق کرے۔ نصیحت کے جائز حق کو استعمال کرتے ہوئے وہ سیاسی ٹکراؤ سے مکمل طورپر بچے۔
فرق کا یہ اصول بے حد اہم ہے۔ سماج میں جب بھی تشدد کا ماحول بنتا ہے، وہ اُس وقت بنتا ہے جب کہ لوگ حکمراں کے خلاف عملی ٹکراؤ کی مہم شروع کردیں۔ وہ اصلاح سیاست کے نام پر حکمراں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ لیکن اگر اس قسم کی نزاعی سیاست سے بچتے ہوئے صرف قولی نصیحت پر اکتفا کیا جائے تو ہمیشہ ایسا ہوگا کہ سماج میں امن قائم رہے گا، سماج کبھی بھی تشدد کا جنگل نہیں بنے گا۔