تشدد مایوسی کا نتیجہ
تشدد محرومی کے احساس کانتیجہ ہے، اورامن یافت کے احساس کا نتیجہ۔ جولوگ اس احساس میں مبتلا ہوں کہ وہ محروم ہیں، دوسروں نے اُن کی چیز اُن سے چھین لی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ منفی نفسیات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور اُن کا یہی احساس اکثر تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس احساس میں جیتے ہوں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں یافت کا تجربہ کیا ہے، ایسے لوگ ذہنی سکون سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پُر امن زندگی گذارتے ہیں۔
جو فرد یا گروہ دوسروں کے خلاف نفرت کرے، جو دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے، وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محروم سمجھ رہا ہے۔ اس کے برعکس جو فرد یا گروہ امن پسندی کی زندگی گذارے وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں وہ چیز پالی ہے جو اُس کو پانا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ محرومی کا احساس کسی کو کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کون لوگ ہیںجو ہمیشہ یافت کے احساس میں جیتے ہیں۔
اس دنیا میں سب سے بڑا پانا یہ ہے کہ آدمی نے خدا کو پالیا ہو اور سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی خدا کو پانے سے محروم ہو۔ خدا کو پانے کے بعد کوئی اور چیز پانے کے لیے باقی نہیں رہتی، اور جو لوگ خدا کو پانے سے محروم ہوں وہ گویا محرومی کی اس آخری حالت پر پہنچ گئے ہیں جہاں محرومی ہی محرومی ہے، اول بھی اور آخر بھی، کوئی بھی چیز اُن کی محرومی کے احساس کو ختم کرنے والی نہیں۔