صبر کا طریقہ حمایت یافتہ طریقہ
قرآن کی سورہ الانفال میں کہاگیا ہے کہ:وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ( 8:46) یعنی تم لوگ صبر کی روش اختیار کرو، بیشک اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو صبر کی روش اختیار کریں۔
صابرانہ طریقِ کار کو دوسرے لفظوں میں پُر امن طریقِ کار کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقِ کار متشدادانہ طریقِ کار ہے۔ مذکورہ آیت فطرت کے اس قانون کو بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں جو لوگ پُر امن طریقِ کار اختیار کریں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ فطرت کے تمام اسباب اُن کی حمایت میں مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ متشددانہ طریقِ کار اختیار کریں وہ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجاتے ہیں، اور جو لوگ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجائیں اُن کے لیے خدا کی اس دنیا میں ناکامی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔
صبر کے طریقہ کا مطلب کیا ہے۔ صبر کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ناخوش گوار باتوں پر اپنی برداشت نہ کھوئے۔ تاکہ اس کی مثبت سوچ درہم برہم نہ ہونے پائے۔ وہ ممکن اور ناممکن میں فرق کرے اور ممکن کواپنا نقطۂ آغاز بنائے۔ وہ اچانک انجام کا خواہش مند نہ ہو بلکہ تدریج کا انداز اختیار کرے۔ وہ نقصان پر مایوس نہ ہو بلکہ مستقبل کے پیش نظر اپنا عمل جاری رکھے۔ جو کچھ آج ملنے والا ہے اُس کو وہ آج حاصل کرے اور جو کچھ کل ملنے والاہے اُس کے لیے وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ اپنی خواہش کو فطرت کے قانون کے ماتحت رکھے، نہ کہ فطرت کے قانون کو اپنی خواہش کے ماتحت بنانے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے، صبر کوئی سلبی یا انفعالی روش نہیں۔