ایک حدیث

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک پیش آنے والی ساری باتیں آپ نے ہم کو بتائیں۔ اس خطبہ میں آپ نے اپنی امت کونہایت شدت کے ساتھ سیاسی بغاوت سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی حکمراں خواہ تمہارے نزدیک ظالم ہو، وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا مال چھین لے تب بھی تم اس کی اطاعت کرو۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا : وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ، وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (سنن ابی داؤد، حديث نمبر4252؛سنن الترمذي، حديث نمبر 2202) یعنی میں اپنی امت پر سب سے زیادہ گمراہ کرنے والے لیڈروں سے خائف ہوں، اور جب میری امت میں تلوار داخل ہوجائے گی تو وہ اس سے قیامت تک اٹھائی نہ جائے گی۔

اس قسم کی دوسری حدیثوں کی روشنی میں اس حدیث پر غور کیاجائے تو اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سیاسی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ پر تشدد عمل سے روکا اور پُرامن عمل کی نصیحت کی۔ اس لیے کہ پر تشدد عمل کی روایت اگر ایک بار قائم ہو جائے تو اس کے بعد اُس کو ختم کرنا بے حد مشکل ہوجاتاہے۔

حدیث کی کتابوں میں کثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں آپ نے حکمراں کے خلاف خروج سے آخری حد تک منع فرمایا ہے۔ اس بنا پر علماء نے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف کسی بھی عذر کی بنا پر بغاوت کرنا حرام ہے۔ (الغلو فی الدین  صفحہ  417)

ایک طرف حاکم کے خلاف متشددانہ سیاست کی یہ مطلق ممانعت ہے۔ دوسری طرف روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: افضل الجهاد من قال کلمۃ حقٍ عندسلطان جائر (سنن النسائي حديث نمبر 4209؛ سنن الترمذي، حديث نمبر 2174؛ سنن ابو داؤد، حديث نمبر 4344؛سنن ابن ماجه، حديث نمبر 4344؛ مسند احمد، حديث نمبر 11143) یعنی افضل جہاد یہ ہے کہ کوئی شخص ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات کہے۔

ان دونوں قسم کی روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ کسی کو کوئی حکمراں شخص ظالم دکھائی دے تب بھی اس کے لیے زیادہ سے زیادہ جس حد تک جانے کی اجازت ہے وہ صرف قولی معنٰی میں اظہار رائے ہے ، نہ کہ عملی معنٰی میں مخالفانہ سیاست چلانا یا حکمراں کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اسلام میں صرف پر امن جدوجہد (peaceful  struggle)  ہے۔ پر تشدد جدوجہد (violent struggle) کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر اسلام میں جائز نہیں۔

اسلام کی بعد کی تاریخ کا غالباً سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مذکورہ واضح ہدایات کے باوجود بعد کی مسلم نسلوں میں جہاد کے نام پر متشددانہ سیاست کی روایت چل پڑی۔ حتٰی کہ یہ ذہن مسلمانوں پر اتنا زیادہ چھایا کہ دین رحمت (الانبیاء،21:107) ان کے یہاں دین جہاد بمعنٰی قتال بن گیا۔ بعد کی صدیوں میں تیار ہونے والا بیشتر لٹریچر براہ راست یا بالواسطہ طورپر اسی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔

بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں اُن میں اس ذہن کی عکاسی اس طرح ہوئی کہ صبر واعراض کی آیتوں کے بارے میں لکھ دیا گیا کہ قتال کا حکم اُترنے کے بعد یہ آیتیں منسوخ ہوگئیں۔ احادیث جمع کرکے مرتب کی گئیں تو اُن میں کتاب الجہاد تو نہایت تفصیل کے ساتھ درج کیا گیا مگر کتاب الدعوہ والتبلیغ سرے سے کسی کتاب میں شامل نہیں۔ یہی حال فقہ کی تمام کتابوں کا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں جہاد اور متعلقاتِ جہاد کے احکام نہایت تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں مگر دعوت اور متعلقاتِ دعوت کے ابواب کسی بھی فقہی کتاب میں قائم نہیں کیے گئے۔

یہی حال بعد کو پیدا ہونے والے تقریباً تمام اسلامی لٹریچر کا ہوا۔ ابن تیمیہ سے لے کر شاہ ولی اللہ تک، اور شاہ ولی اللہ سے لے کر موجودہ زمانہ کے مصنفین تک، کوئی بھی شخص دعوت کے موضوع پر کوئی کتاب تیار نہ کرسکا۔ اگر کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ ہے تو وہ بھی ایسا ہی ہے جیسے سیاست یا فضائل کی کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ رکھ دیا جائے۔

اس قسم کے لٹریچر کے تحت مسلمانوں کا جومزاج بنا اُسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنے والے لوگ ہیرو بن جاتے ہیں اور جو شخص ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرے وہ اُن میں غیر مقبول ہو کر رہ جاتاہے۔

اسی بنا پر ایسا ہوا کہ امام حسین کے کردار کو تو ہمارے مقررین اور محررین نے خوب نمایاں کیا مگر امام حسن کا کردار نمایاں نہ کیاجاسکا۔صلاح الدین ایوبی کو مسلمانوں کے درمیان زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ مگر وہ لوگ جنہوںنے تاتاری غارت گروں کو اسلام میں داخل کرکے انہیں اسلام کا خادم بنایا اُن کا کوئی تذکرہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ موجودہ زمانہ میں اُسامہ بن لادن جیسے تشدد کی بات کرنے والے لوگ نہایت آسانی سے مسلمانوں کے درمیان ہیرو بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص امن اور احترامِ انسانیت کی بات کرے تو وہ مسلمانوں کے درمیان عمومی قبولیت حاصل نہ کرسکے گا۔

اس ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عام انسانیت مسلمانوں کا کنسرن (concern) ہی نہ رہی۔ مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ خداکے بندوں کو وہ ’’اپنی قوم‘‘ اور ’’غیر قوم‘‘ میں تقسیم کرکے دیکھنے لگے۔ دعوتی طرزِ فکر کے مطابق، مسلمان اور غیر مسلم داعی اور مدعو قرار پاتے ہیں۔ اس کے برعکس جہادی (بمعنٰی قتالی) طرزِ فکر میں یہ ہوتا ہے کہ مسلمان دوسروں کو اپنا حریف اور رقیب سمجھنے لگتے ہیں۔

مغربی قوموں کے استیلاء کے بعد یہ فرق بہت زیادہ بڑھ گیا۔مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ مغربی قوموں نے اُن سے اُن کا برتری کا مقام چھین لیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ رقابت مزید اضافہ کے ساتھ نفرت بن گئی۔ مسلمان عام طورپر دوسری قوموں کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom